• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ نے طلبہ مظاہرین کی ذاتی تفصیلات عام کردیں، سرِعام کیمپس گیٹ پر چسپاں کیا

Updated: February 14, 2025, 8:12 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

طلبہ، یونیورسٹی انتظامیہ کے متنازع میمورنڈم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جس کی رو سے انتظامیہ کی منظوری کے بغیر کیمپس میں میٹنگ اور دیگر سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی ہے۔

Jamia Millia Islamia University. Photo: INN
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی۔ تصویر: آئی این این

جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) کی انتظامیہ نے بغیر اجازت احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے ایک عوامی نوٹس جاری کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے نوٹس میں ۱۰ فروری ۲۰۲۵ء کو شام ۵ بجے مرکزی کینٹین ہال میں اجازت لئے بغیر احتجاج کا اہتمام کرنے والے طلبہ کی فہرست ظاہر کی۔ اس فہرست میں طلبہ کے نام، تصاویر، ان کے شناختی نمبر، موبائل نمبر، ای میل ایڈریس، گھر کے پتے، تعلیمی شعبہ جات، اور تعلیمی ریکارڈ جیسی ذاتی تفصیلات بھی درج تھیں۔ جے ایم آئی انتظامیہ نے ان تفصیلات کو عوامی سطح پر کیمپس کے تمام دروازوں پر چسپاں کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: برہانپور: ماجد حسین نے جے ای ای میں تاریخ رقم کردی

طلبہ کا ردعمل

مکتوب میڈیا کے مطابق، نوٹس میں جن طلبہ کی تفصیلات عام کی گئی ہیں، وہ آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، ڈی آئی ایس ایس سی، اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا، فریٹرنٹی مومنٹ، نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا و دیگر طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتظامیہ کے اس اقدام پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک طالب علم، جس کا نام نوٹس میں درج ہے، نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی اور ناقابل تصور کریک ڈاؤن ہے۔ اس کا مقصد طلبہ کو دہشت زدہ کرنا ہے۔ ایک طالب علم نے انتظامیہ کے اقدام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میری تفصیلات بشمول میرے ای میل آئی ڈی اور فون نمبر کو یوں عوامی سطح میں کیسے شائع کیا جا سکتا ہے؟ طالب علم نے مزید کہا کہ یہ قومی دارالحکومت ہے، جہاں ہندوتوا قوم پرست آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جہاں اس ادارے کے طلبہ پر ہندوتوا گروپوں نے حملہ کیا تھا اور طلبہ پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ انتظامیہ کا نوٹس رازداری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر ہمیں کچھ ہوا تو حکام ذمہ دار ہوں گے۔ 

یونیورسٹی انتظامیہ کے طلبہ پر الزامات

اس سے قبل، ۲ دن پہلے یونیورسٹی حکام نے ایک ای میل بھیج کر ۱۰ فروری کو احتجاج کرنے والے طلبہ کو معطل کر دیا تھا۔ حکام نے طلبہ پر "یونیورسٹی کی املاک کی توڑ پھوڑ کرنے اور اسے بدنام کرنے"، "بدسلوکی اور ہتک آمیز نعرے"، "اساتذہ کی نافرمانی"، اور یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے سنگین الزامات عائد کئے۔ 

ایک بیان میں، یونیورسٹی نے الزام لگایا کہ چند طلبہ نے ۱۰ فروری ۲۰۲۵ء کی شام سے غیر قانونی طور پر تعلیمی بلاک میں جمع ہوکر احتجاج کا اعلان کیا اور گزشتہ ۲ دنوں میں، مرکزی کینٹین سمیت یونیورسٹی کی املاک کی توڑ پھوڑ کی، اور کیمپس کے حفاظتی مشیر کا گیٹ بھی توڑ دیا۔ ان واقعات نے انتظامیہ کو طلبہ کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کردیا۔ بیان کے مطابق، طلبہ نے یونیورسٹی کے دیگر قوانین کی بھی خلاف ورزی کی اور ان کے پاس قابل اعتراض ممنوعہ اشیاء پائی گئیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: نیویارک ٹائمز کا نظریہ مودی کے ہندوستان کے تعلق سے غلط ہے: ڈی وائی چندرچڈ

دہلی پولیس کی کارروائی

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تحریک کے دوران کیمپس میں پولیس کے کریک ڈاؤن کی پانچویں برسی کے موقع پر "جامعہ مزاحمتی دن" (۱۵ دسمبر) کو مظاہرہ کرنے کے باعث گزشتہ سال ۲ پی ایچ ڈی اسکالرز کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کئے گئے تھے۔ اس کے خلاف احتجاج کر رہے کئی طلبہ کو دہلی پولیس نے جمعرات کو حراست میں لے لیا اور طلبہ کے دوستوں یا اہل خانہ کو کوئی اطلاع دیئے بغیر انہیں ۱۲ گھنٹوں تک حراست میں رکھا۔ 

طلبہ نے ایک متنازع میمورنڈم کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا جس کے تحت انتظامیہ کی پیشگی منظوری کے بغیر کیمپس میں میٹنگ، اجتماعات، احتجاج اور نعرے بازی کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں جمعرات کی صبح کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور پولیس نے انہیں صبح ۵ بجے کے قریب حراست میں لے لیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مرد اور خواتین طلبہ کو جنوب مشرقی دہلی کے مختلف تھانوں میں زبردستی لے جایا گیا۔ طالبات نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ مرد پولیس اہلکاروں نے ان کے بال کھینچے، انہیں زبردستی گھسیٹا، انہیں شدید مارا پیٹا، ان کے فون چھین لئے اور انہیں ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK