سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے بی بی سی کو دئے انٹروویو میں اپنے ایودھیا، اور دفعہ ۳۷۰؍ پر دئے فیصلوں کا دفاع کیا، اور کہا کہ نیویارک ٹائمز کا نظریہ مودی کے ہندوستان کے تعلق سے غلط ہے۔
EPAPER
Updated: February 14, 2025, 7:07 PM IST | New Delhi
سابق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے بی بی سی کو دئے انٹروویو میں اپنے ایودھیا، اور دفعہ ۳۷۰؍ پر دئے فیصلوں کا دفاع کیا، اور کہا کہ نیویارک ٹائمز کا نظریہ مودی کے ہندوستان کے تعلق سے غلط ہے۔
ہندوستان کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کا بی بی سی کے ہارڈ ٹاک پردیا گیا انٹروویو ملک میں انٹر نیٹ پر دھوم مچا رہا ہے۔ان کے انٹروویو کے چند اہم نکات پیش ہیں۔
بی بی سی کے اسٹیفن ساکور نے پوچھا کہ کیا ہندوستان کی عدالتیں مودی حکومت اور حکمراں بی جے پی کی منشاء کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں۔اس سوال کی چندر چڈ نے سختی سے تردید کی۔اور کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ شخصی آزادی کیلئے سرگرم رہی ہے۔ اور میں یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اوپر اپنے لوگوں کا اتنا زیادہ اعتماد ہے۔عمر خالد کی ضمانت درخواست کئی بار ملتوی ہو چکی ہے۔چندرچڈ اور اسٹیفن ساکور دونوں نے عمر خالد کی قید کا حوالہ نہیں دیا۔سابق چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ریکارڈ تعداد میں ضمانت کی درخواستیں منظور کیں، جس سے ان کے بقول یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں قانون کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سری نگر کی جامع مسجد مسلسل ۶؍ سال شب برات کے موقع پر بند رہی
بی بی سی کے نمائندنے نیو یارک ٹائمز کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی عدالتیں مودی حکومت میں شامل افراد کو بچا رہی ہیں اور حزب اختلاف کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اور دائیں بازو کی پارٹی ہندوستان میں ایک پارٹی کی حکومت کیلئے کوشاں ہے۔اس کے جواب میں چندرچڈ نے کہا کہ یہاں نیویارک ٹائمز کا نظریہ مودی کے ہندوستان کے تعلق سے بلکل غلط ہے۔۲۰۲۴ء کے انتخابی نتائج نے اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ہندوستان کی ریاستوں میں دیکھیں گے تو وہاں کئی علاقائی پارٹیاں اقتدار میں ہیں۔
شیو سینا کے منحرف اراکین کے حکومت بنانے کے عمل کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلاسپریم کورٹ نے ایم ایل اے کی نا اہلی کا فیصلہ اسپیکر پر چھوڑ دیا، جنہوں نے دونوں دھٹروں کے تمام ۳۰؍ ایم ایل اے کے نا اہلی کے طریقہ کار کو ہی مسترد کردیا۔اس پر چندر چڈ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ۲۰۲۴ء کے انتخابات سے عین قبل شیو سینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے نشانات ان دھڑوں کو دے دیے تھے جو بنیادی جماعتوں سے منحرف ہو گئے تھے۔ایم ایل اے کی نااہلی کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں جاری ہے حالانکہ گزشتہ دسمبر میں نئی اسمبلی کے حلف کے ساتھ ہی اس معاملے نے اپنی افادیت کھو دی ہے۔
بی بی سی نمائندے نے چندر چڈ سے پوچھا جب ایک نئے قانون کے تحت مودی نے چیف الیکشن کمشنر اورالیکشن کمشنروں کے انتخاب کے تین رکنی پینل سے چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹا دیا، اور مرکزی وزیر داخلہ نے ان کی جگہ لی۔ وکیل پرشانت بھوشن نے ایک این جی او کے ذریعے اس قانون کو چیلنج کیا ہے جس کی سماعت ۱۹؍ فروری کو ہوگی، اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا یہ اقدام عدالت کے سابقہ فیصلے سے متصادم ہے جس نے چیف الیکشن کمشنر اور دو دیگر کمشنروں کیلئے ایک آزاد انتخابی پینل کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔اس کیس کی اگلی سماعت راجیو کمار کے ریٹائر ہونے کے ایک دن بعد ۱۹؍فروری کو ہوگی۔حزب اختلاف لیڈر راہل گاندھی نے لوک سبھا میں اس معاملے کو اٹھایا تھا، کہ جب مودی اور امیت شاہ اکثریت میں ہیں تو ایسے انتخابی پینل میں شامل ہونے کا فائدہ کیا۔
یہ بھی پڑھئے: ہائی کورٹ نے پلاسٹک کے پھولوں کو ماحولیاتی آلودگی کا سبب قرار دیا
گنپتی کے تہوار کے موقع پر مودی کی میز بانی کے سوال ، اور ان کے مودی کے قریبی ہونے کے اشارے پر چندرچڈ نے حکومت حامی ہونے کی تردید کی۔اور کہا کہ انہوں نے انتخابی بانڈ کو کالعدم قرار دیا۔حالانکہ ان بانڈ کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی نے اٹھایا تھا۔ساتھ ہی کئی ایسے فیصلے سنائے جو حکومت کے موقف کے خلاف تھے۔