• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

دہلی: مہرولی پارک میں واقع ۲ ڈھانچے مذہبی اہمیت کے حامل: اے ایس آئی نے سپریم کورٹ کو بتایا

Updated: December 26, 2024, 6:56 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عاشق اللہ کی درگاہ سے "ایک مخصوص مذہبی برادری کے مذہبی جذبات اور عقائد" سے وابستہ ہیں۔

Photo: X
تصویر: ایکس

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے جمعرات کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ نئی دہلی کے مہرولی آرکیالوجیکل پارک کے اندر دو ڈھانچے مذہبی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ روزانہ مسلمان عقیدت مند ان مقامات کا دورہ کرتے ہیں۔ اے ایس آئی نے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا کہ عاشق اللہ کی درگاہ اور ۱۳ ویں صدی کے صوفی بزرگ بابا فرید کی چلہ گاہ سے "ایک مخصوص مذہبی برادری کے مذہبی جذبات اور عقائد" سے وابستہ ہیں۔ واضح رہے کہ عاشق اللہ یا شیخ شہاب الدین ایک صوفی بزرگ تھے۔ چلہ گاہ ایک ویران جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں مسلمان صوفی غور و فکر اور دعا کا اہتمام کرتے ہیں۔ رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ "عاشق درگاہ پر عقیدت مند خواہشات کی تکمیل کے لئے چراغاں کرتے ہیں اور بد روحوں اور بدشگون سے چھٹکارا پانے کے لئے چِلّہ کرتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: صدیوں پرانے کنوئیں کی دریافت کے بعد محکمہ آثار قدیمہ سنبھل پہنچا

اے ایس آئی نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی جو ضمیر احمد جملانہ نامی ایک شخص کی درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔ ضمیر احمد نے دہلی ہائی کورٹ کے پارک کے اندر کئی صدیوں پرانے مذہبی ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے ہدایات دینے سے انکار کرنے کے فیصلہ خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ جنوری میں ۶۰۹ سال پرانی مسجد اخونجی، مدرسہ بحر العلوم اور کئی قبروں کو مسمار کرنے کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں اس خدشہ کے تحت عرضی دائر کی گئی تھی کہ پارک میں موجود ۲ ڈھانچوں کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی منہدم کر سکتی ہے۔ ۸ فروری کو ہائی کورٹ نے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے کسی بھی محفوظ یادگار کو نہ گرانے کی ضمانت لینے کے بعد معاملہ نپٹا دیا۔ اس کے بعد، جملانہ نے مہرولی آرکیالوجیکل پارک کے اندر موجود مذہبی ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی ڈھانچوں کی تاریخی حیثیت کا اندازہ لگائے بغیر تجاوزات ہٹانے کے نام پر ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جولائی میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور نیشنل مونومنٹ اتھارٹی سے اسٹیٹس رپورٹ طلب کی تھی۔ 

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عاشق اللہ درگاہ میں شیخ شہاب الدین کے مقبرے پر ایک نوشتہ کے مطابق، اسے ۱۳۱۶ء عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ مقبرہ ۱۲ ویں صدی کے راجپوت بادشاہ پرتھوی راج چوہان کے گڑھ کے قریب تھا اور قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ کے مطابق ۲۰۰ میٹر کے ریگولیٹڈ زون میں آتا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت، محفوظ یادگار کے ۱۰۰ میٹر کے دائرے میں تعمیر پر پابندی ہے۔ اس محدود علاقے سے باہر ۲۰۰ میٹر کے دائرے میں کوئی بھی تعمیر، جسے ریگولیٹڈ ایریا کہا جاتا ہے، منظوری کی ضرورت ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کسی بھی مرمت، تزئین و آرائش یا تعمیراتی کام کے لئے مجاز اتھارٹی کی پیشگی اجازت درکار ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: پارلیمنٹ کے باہر نوجوان کی خود سوزی کی کوشش

اس معاملے کی اگلی سماعت فروری میں ہوگی۔ واضح رہے کہ اس وقت ۱۰ مساجد اور درگاہوں کے متعلق ملک بھر کی عدالتوں میں کم از کم ۱۸ مقدمے زیر التوا ہیں جن میں وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور راجستھان کی اجمیر شریف درگاہ شامل ہیں۔ ان مقدمات میں ہندو فریقین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ڈھانچے قدیم ہندو مندروں کو منہدم کرنے کے بعد بنائے گئے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK