Updated: October 07, 2024, 10:18 PM IST
| New Delhi
کیرالہ سے تعلق رکھنے والے مسلم طلبہ جو دہلی کے لکشمی نگر میں کرایہ کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہوئے تھے، ان کے ساتھ مار پیٹ کے بعد جبری طور پر انہیں فلیٹ خالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔معاملہ پولیس تک پہنچا لیکن طلبہ کا الزام ہے کہ پولیس نے بھی ان کے ساتھ جانبدارانہ سلوک روا رکھا۔ مسلم لیگ کے راجیہ سبھا کے ایم پی کی مداخلت کے بعد معاملہ قدرے بہترہوا۔
دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین کالج میں تعلیم حاصل کر رہے کیرالا سے تعلق رکھنے والے مسلم طلبہ کو جو لکشمی نگر کی ایک عمارت میں کرایہ پر رہتے تھے دو اکتوبر کو مبینہ طور پر حملہ کیا گیا اور جبری عمارت سے نکال دیا گیا۔ان طلبہ نےچھ ہفتے قبل ہی اس عمارت میں ایک فلیٹ کرایہ پر لیا تھا، جو چار منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر واقع تھا۔اس تنازع کی شروعات اس وقت سے ہوئی جب انہوں نے اپنے کالج کے ساتھیوں کو مدعو کیا، دیگر مکینوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کچھ پابندیاں عائد کر دیں۔ چند دنوں بعد حالات اس وقت پر تشدد ہو گئے جب ایک خاتون مکین نے اپنے مرد دوست کے ساتھ مل کران کے ساتھ مار پیٹ کی اور انہیں جبری طور پر آدھی رات کو عمارت سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ابتداء میں خاتون نے طلبہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا لیکن بعد میں اسے تبدیل کرکے کندھے پر مارنے کا الزام لگایا، حالانکہ ویڈیو میں ایسا کوئی بھی عمل ثابت نہیں ہو سکا۔عمارت کے دیگر مکینوں نے گیٹ پر قبضہ کرلیا ، جس کے سبب لڑکوں نے اپنے دوستوں کے یہاں پناہ لی۔انہوں نے مکتوب کو بتایا کہ اس تصادم کی وجہ اسلام دشمنی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے لکشمی نگر میں گھر کی تلاش میں پیش آنے والی دقت کا بھی ذکر کیا۔دو اکتوبر کو جب وہ اس عمارت میں لوٹے تو پڑوسیوں نے ان پر حملہ کر دیا، اور انہیں وہاں سے جانے کہا،جب ان لڑکوں کے دو دوست سہل امین اور سفوان وہاںخبر لینے پہنچے تومعاملہ تصادم میں تبدیل ہو گیا۔ویڈیو میں صاف کھائی دے رہا ہے کہ کس طرح ایک پڑوسی نے سہل کا گلا دبانے کی کوشش کی، سہل کا دعوی ہے کہ اسے کئی لوگوں نے مل کر بری طرح مارا پیٹا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ۷؍ اکتوبر کی برسی پر جوبائیڈن اور کملا ہیرس کا اسرائیل سےاظہار غم
اس جھگڑے کے دوران ایک حملہ آور نے کہا کہ رجسٹری کے مطابق اس عمارت میں کسی بھی مسلم کے گھر خریدنے یا کرایہ پر لینے پر پابندی ہے۔لیکن ان کا مکان مالک ان ضوابط سے نا واقف تھا۔ طلبہ کے مطابق معاملہ جب پولیس تک پہنچا تو وہاں بھی ان کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کیا گیا۔ جہاں انہیں پولیس کی گاڑی میں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ، وہیں اس خاتون اور اس کے شناسا کو ذاتی گاڑی میں آنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے علاوہ پولیس چوکی میں بھی انہیں بنیادی ضروریات جیسے طہارت خانہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ خاتون کے ساتھ پولیس کا رویہ دوستانہ تھا۔حالات اس وقت ذرا بہتر ہوئے جب انڈین مسلم لیگ کے راجیہ سبھا کے ایم پی حارث بیرن نے معاملے میں مداخلت کی اور اپنے ذاتی معاون کو لڑکوں کی مدد کیلئے بھیجا۔اس کے بعد ہی پولیس اس معاملے کے ویڈیو شواہد دیکھنے پر راضی ہوئی۔حالانکہ حملہ آوروں نے اسلام مخالف فقرہ سے انکار کیا۔
یہ بھی پڑھئے: آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج
اپنے قانونی اور جمہوری حق اور مکان مالک کے تعاون کے باوجود مکان مالک نے مزید تصادم سے بچنے کیلئے ان لڑکوں سے فلیٹ خالی کرنے کی گزارش کی۔لڑکوں نے مکتوب کو بتایا کہ انہیں دو ہفتوں کا وقت دیا گیا۔ بادل نخواستہ لڑکوں نے جسمانی اور معاشی نقصان اٹھاتے ہوئے فلیٹ خالی کر دیا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ بطور مسلم دہلی میں مکان حاصل کرنا کتنا مشکل امر ہے۔