کانگو میں حکومتی فورسیز اور رواندان کی حمایت والے ایم ۲۳؍ مسلح گروپ کی لڑائی کے درمیان گزشتہ ۵؍ دنوں میں ۷۰۰؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ (یو این) کی ایجنسیوں نے جمعہ کو جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
EPAPER
Updated: February 01, 2025, 6:57 PM IST | Goma
کانگو میں حکومتی فورسیز اور رواندان کی حمایت والے ایم ۲۳؍ مسلح گروپ کی لڑائی کے درمیان گزشتہ ۵؍ دنوں میں ۷۰۰؍ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ (یو این) کی ایجنسیوں نے جمعہ کو جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ (یو این)کی ایجنسیوں نے جمعہ کو جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) میں تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ حکومتی فورسیز اور روندان کی حمایت والے ایم ۲۳؍ مسلح گروپ کے درمیان لڑائی میں اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ باغیوں نے کانگو کے دارالحکومت گوماپر قبضہ کر لیا ہے۔ رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’باغی جمہوریہ کانگو کے صوبے جنوبی کیوو کے دارالحکومت بوکاوو کے قریب ہیں۔‘‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)اوراس کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ ۵؍ دنوں میں ۷۰۰؍ افراد کی موت ہوئی ہے جبکہ طبی مراکز میں ۲؍ ہزار ۸۰۰؍ افراد کا علاج جاری ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: گجرات فسادات کی متاثرہ ذکیہ جعفری انصاف کیلئے جنگ لڑتے لڑتے انتقال کرگئیں
تاہم، مہلوکین کی تعداد بڑھنے کے امکانات ہیں۔ معدنیات سے مالا مال علاقے میں جارحانہ کارروائیاں بڑھتی جارہی ہیں جو مسلح گروپوں کے پھیلاؤ کے درمیان غیر مستحکم ہے جنہوں نے اتنے برسوں سے دسیوں ہزاروں افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر پناہ گزین خیموں میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے۔‘‘اقوام متحدہ کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’ایم ۲۳؍، جو ان سیکڑوں مسلح گروپوں میں سے ایک ہے جو ڈی آر سی کے مشرق میں قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں روانڈہ کے ۴؍ہزار فوجی ہیں جن کے بارے میں کانگو کا کہنا ہے کہ وہ معدنیات سے مالال مال ذرائع سے قیمتی وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: پارلیمنٹ سے صدر جمہوریہ کا خطاب، اپوزیشن کی تنقید
روانڈہ کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا ابتدائی مقصد ۱۹۹۴ءکی نسل کشی میں ملوث جنگجوؤں کو ختم کرنا ہے۔‘‘اقوام متحدہ کے رضاکاروں نے خبردار کیا ہے کہ گوما اور اس کے اطراف لڑائی کی وجہ سےپھنسے ہوئے افراد کیلئے حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں اور وہاں ایک ملین سے زائد شہری آباد ہیں۔قبل ازیں شہر کے مضافات میں پناہ گزین خیموں میں ۳؍لاکھ سے زائد افراد نے پناہ لی ہوئی تھی جبکہ تشدد میں اضافہ دیکھ کر لوگ ان خیموں کو بھی چھوڑکر بھاگ رہے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے طبی خدمات میں اضافہ ہوا ہے ۔زخمیوں میں شہری افراد اور فوجی اہلکار دونوں شامل ہیں۔ اس ضمن میں ڈبلیو ایف پی کی ترجمان شیلی ٹھکرال کا کہنا ہے کہ’’لوگ غذا، صاف پانی اور طبی سپلائی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں ہمارے لئے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ سپلائی چین کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔‘‘