ایمسٹرڈیم میں تشدد کے واقعات کے بعد نیدرلینڈز میں سام دشمنی اور نسلی تناؤ پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور ایمسٹرڈیم کی رواداری اور کثیر الثقافتی پر مبنی شناخت کو نقصان پہنچا ہے۔
EPAPER
Updated: November 14, 2024, 10:06 PM IST | Amsterdam
ایمسٹرڈیم میں تشدد کے واقعات کے بعد نیدرلینڈز میں سام دشمنی اور نسلی تناؤ پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور ایمسٹرڈیم کی رواداری اور کثیر الثقافتی پر مبنی شناخت کو نقصان پہنچا ہے۔
نیدرلینڈز کے انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان گیئرٹ وائلڈرز نے حال ہی میں ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی فٹ بال شائقین کے خلاف تشدد کے لئے "مراکشی اور مسلمانوں" کو مورد الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ (مسلمان) یہودیوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ وائلڈرز نے اس واقعہ میں ملوث اور دوہری شہریت رکھنے والے افراد کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ ایمسٹرڈیم میں گزشتہ ہفتہ ایجیکس ایمسٹرڈیم اور مکابی تل ابیب کے درمیان فٹبال میچ کے دوران اسرائیلی حامیوں کے ذریعے عرب مخالف نعروں اور فلسطینی جھنڈوں کو گرانے جانے کے بعد کشیدگی پھیل گئی تھی۔ ایمسٹرڈیم حکام کی رپورٹ کے مطابق، اس دوران مکابی حامی لاٹھیوں سے چیزوں کو تباہ کررہے تھے اور شرپسند عناصر نے مکابی حامیوں کو نشانہ بنایا۔ ہنگامہ کے بعد، ۵ افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
فٹبال مقابلہ کے بعد ہوئے تشدد کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ حالیہ تشدد کی روشنی میں ایمسٹرڈیم نے فلسطین حامی مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ تاہم، سینکڑوں فلسطینی حامی مظاہرین بدھ کو ڈیم اسکوائر پر جمع ہوئے اور نئی پابندیوں کو مسترد کیا۔ بڑی تعداد میں تعینات پولیس نے متعدد مظاہرین کو پرامن طریقے سے حراست میں لے لیا۔ ایمسٹرڈیم میں تشدد کے واقعات کے بعد نیدرلینڈز میں سام دشمنی اور نسلی تناؤ پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور ڈچ راجدھانی کی روادار اور کثیر الثقافتی شناخت کو نقصان پہنچا ہے۔ ڈچ قانون سازوں نے وسیع پیمانے پر سام دشمنی کی مذمت کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ مجرموں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ تاہم، ولڈرز کو اپنے بیانات کیلئے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ حزب اختلاف کے لیڈران نے ان پر "آگ میں گھی ڈالنے" کا الزام لگایا اور کہا کہ ان کے تبصرے سماجی اتحاد کو فروغ دینے کے بجائے سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ پارٹی فار فریڈم کے رہنما وائلڈرز طویل عرصے سے اپنے امیگریشن مخالف موقف اور اسرائیل کی حمایت کے لئے مشہور ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: آسٹریلیا: ’کارپس فلاور‘ پوری طرح کھل گیا، پارک کے باہر ہزاروں افراد کا مجمع
ولڈرز کے تبصرے نے ڈچ سیاستدانوں کے درمیان بحث چھیڑ دی ہے۔ سینٹرسٹ ڈی 66 پارٹی کے لیڈر روب جیٹن نے دلیل دی کہ ولڈرز کی زبان تفرقہ انگیز ہے جس سے سام دشمنی سے نمٹنے اور ایک متحد معاشرے کی تعمیر کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بیان بازی حل نہیں نکاتی بلکہ سماج کو مزید تقسیم کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں سینٹر لیفٹ پارٹیوں کے لیڈر فرانسس ٹیمرمینز نے سیاستدانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تنازعات کو ہوا دینے کی بجائے اتحاد کو ترجیح دیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ وائلڈرز کے تبصرے لوگوں میں اتحاد اور تعمیری راستوں کی تلاش کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایمسٹرڈیم میں، یہودی سٹی کونسل کے ممتاز رکن اٹے گارمی نے یہودی کمیونٹی کے خوف پر سیاست پر تشویش کا اظہار کیا۔ گارمی نے یہودی باشندوں کے خدشات کو سیاسی ایجنڈوں کو چلانے کے لئے استعمال کرنے کے خلاف خبردار کیا اور زور دیا کہ اشتعال انگیز تبصرے صرف صورت حال کو بڑھاوا دیتے ہیں۔