• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۷ء کے درمیان ’ال نینو‘ ہندوستان میں ہیضہ کا سبب رہا ہوگا: تحقیق

Updated: August 02, 2024, 9:39 PM IST | New Delhi

نئی تحقیق کے مطابق ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۷ء کے درمیان ال نینو کا ایک واقعہ بڑے پیمانے موسمی تبدیلیوں کا باعث بنا جس کی وجہ سے ہندوستان میں ہیضے کے پھیلاؤ کیلئے ماحول سازگار ہوا تھا۔ ہیضے کی وبا ۱۸۱۷ء میں پہلی بارہندوستان، عرب اور شمالی افریقہ میں مہلک ثابت ہوئی تھی۔ ۱۹۰۰ء میں ہندوستان بھر کے صوبوں سے غیر معمولی۷؍ لاکھ اموات کی اطلاع ملی جو اس وقت برطانوی حکومت کے تحت تھا۔

A child in Africa is being given anti-cholera medicine. Photo: INN.
افریقہ میں ایک بچے کو ہیضہ نہ ہونے کی دوا پلائی جارہی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

۲۰؍ویں صدی کے اوائل کی وبائی بیماری اور اس کے پھیلنے کی وجوہات کاتجزیہ کرنے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ال نینو کا ایک واقعہ بڑے پیمانے موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنا جیسے کہ غیر معمولی درجہ حرارت اور تیز بارش، جس کی وجہ سے ہندوستان میں ہیضے کے پھیلاؤ کیلئے ماحول سازگار ہوگیا۔ ہندوستانی محققین نے پایا کہ ماحولیات وائبریو کولرا نامی جراثیم کے نئے اسٹرین کو پیدا کرنے اور پھیلانے میں مدد کر سکتا تھا جسے پہلی بار ۱۸۸۴ءمیں جرمن مائیکرو بایولوجسٹ رابرٹ کوچ نے دریافت کیا تھا جس کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماری چھوٹی آنت کو متاثر کرتی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: ۷؍ اکتوبر سے اب تک ۱۶؍ ہزار ۳۱۴؍ فلسطینی بچے ہلاک ہوئے ہیں

بارسلونا انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ، اسپین کے محققین کی ٹیم کے مطابق ہیضہ پھیلانے میں ماحولیات کے کردار پر پچھلی دو صدیوں سے بحث ہوتی رہی ہے۔ ہیضے کی وبا ۱۸۱۷ء میں پہلی بارہندوستان، عرب اور شمالی افریقہ میں مہلک ثابت ہوئی۔ ۱۹۰۰ءمیں ہندوستان بھر کے صوبوں سے غیر معمولی۷؍ لاکھ اموات کی اطلاع ملی جو اس وقت برطانوی حکومت کے تحت تھا۔ اس تحقیق کی رپورٹ جریدے PLOS Neglected Tropical Diseases میں شائع ہوا۔ محققین نے ہندوستان کے مختلف خطوں میں موجودہ موسمیاتی حالات اور ہیضے سے ہونے والی اموات کے تاریخی ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ترکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر پابندی عائد کی

ان کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ ہیضے کی اموات میں پیٹرن غیر معمولی موسمی درجہ حرارت اور ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۷ءکے ال نینو واقعے کے نتیجے میں ہونے والی بارشوں کے ساتھ موافق تھے۔ محققین نے موسم کے ان غیر معمولی واقعات کے وقت کو ایک نئے ناگوار اسٹرین کی نشوونما کے ساتھ جوڑ دیاجس کی وجہ سے موت کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ مزید برآں، ٹیم نے۱۹۶۱ء میں شروع ہونے والی’’ `ایل ٹور‘‘ وبائی بیماری کیلئے ماضی کے موسمی حالات اور ہیضے کے ڈیٹا کا بھی تجزیہ کیا۔ مصنفین نے پایا کہ ماضی میں آب و ہوا کے حالات مضبوط ال نینو واقعات سے مماثلت رکھتے ہیں جن کا تعلق ہیضے کے اسٹرین کی تبدیلیوں سے ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ہر سال بیکٹیریل بیماری کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ۱۳؍ سے ۴۰؍ لاکھ کیسز اور۲۱؍ ہزار سے ڈیڑھ لاکھ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ مصنفین نے ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے گرم آب و ہوا کی مدد سے ابھرنے والے نئے ہیضے کے اسٹرین کے خدشات کا مزید جائزہ لیا۔ مصنفین نے پایا کہ آب و ہوا کی انتہا، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے، موجودہ صدی کے آخر تک ہیضے کے نئے اسٹرین کے نمودار ہونے کے خدشات کو بڑھا سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ گلوبل وارمنگ کے تحت آب و ہوا کی تغیرات میں اضافہ اور انتہا ابھرتے ہوئے پیتھوجینز کیلئے مواقع فراہم کرتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK