Updated: October 05, 2024, 8:56 PM IST
| Hyderabad
تلنگانہ کے جینور گاؤں میں ہوئے مسلم مخالف فسادکی تحقیق کرنے والی سماجی کارکنان کی فیکٹ فائینڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں فساد سے قبل فساد کا سبب بننے والے واقعات کا ذکر کیا ہے،ساتھ ہی انہوں نے پولیس اور انتظامیہ پر ان سازشوں کو نظر انداز کرنے کاالزام عائد کیاہے۔
۴؍ ستمبر کو تلنگانہ کے جینور گاؤں میں ہونے والے مسلم مخالف فساد کے حقائق کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ اس رپورٹ میں فساد کیلئے ریاستی حکومت کی بے عملی اور سازش کا خلاصہ کیا گیا ہے۔یہ رپورٹ سماجی اور شہری کارکنان کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کچھ سیاستدانوں نے آدیواسی اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے میں کردار ادا کیا۔اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سے چشم پوشی کی۔رپورٹ کے مطابق وڈارا، ونجارا، اور قبائیلی سماج کے تقریباً ۵۰۰۰؍ فسادیوں نے جینور اور اس کے اطراف کے گاؤں میں آباد مسلمانوں کی ۹۵؍ دکانوں ، ۱۱؍ گھروں ،چار مساجد اور ۴۲؍ گاڑیوں میں آگ لگائی ۔گزشتہ ہفتے شائع اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ۳۱؍ اگست کو ایک آدیواسی خاتون پر مبینہ حملے کو بہانہ بنا کر بی جے پی نے مسلمانوں پر حملوں کیلئے اکسایا اور اس میں مکمل معاونت کی۔ بی آر ایس کے کئی لیڈر وں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے حالیہ انتخاب میں کانگریس کو ووٹ دینے کا انتقام لیا۔
یہ بھی پڑھئے: امیریٹس نے طیارے میں پیجر اور واکی ٹاکی لےجانے پر پابندی عائد کی
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ۲۰ ؍ دنوں تک مسلمانوں کے خلاف جھوٹی مہم چلائی گئی جگہ جگہ نام نہاد ’’ لو جہاد‘‘ کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔اور یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ مسلمان اکثر قبائیلی خواتین کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرتے ہیں۔اس دوران ریاستی ادارے قصداً آنکھ موندے رہے۔جبکہ پولیس نے ان الزامات کے حقائق جاننے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔اس رپورٹ میں حکومت سے سبکدوش جج کی نگرانی میں ایک آزاد انکوائری کمیشن قائم کرنے ، اور ڈی ایس پی ، ایس پی اور دیگر افسران جو حالات کو قابو کرنے میں ناکام رہے ان کی برخاستگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: حکومت مخالف تحریروں پر صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا: سپریم کورٹ
حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں تیار کی گئی اس رپورٹ میں فساد کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ اس طرح ہے کہ ۱۲؍ مئی کو پارلیمانی انتخاب کے دوران وڈارا سماج اور مسلمانوں کے مابین جینور سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر معمولی جھڑپ ہوتی ہے۔جب ایک وڈارا سماج کے فرد کی بائیک سے مسلم لڑکے کو چوٹ لگ جاتی ہے۔اس کے بعد کہا سنی میں چار سے پانچ وڈارا سماج کے لڑکے آکر اس زخمی مسلم لڑکے کی پٹائی کر دیتے ہیں۔ کچھ ہی منٹوں کے بعد ۷؍ سے ۸؍ مسلم لڑکے وہاں پہنچ کروڈارا سامج کے ان تمام لڑکوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد دیگر مسلمان وہاں پہنچ کر معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں۔لیکن پولیس یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئےصرف مسلم لڑکوں کو حراست میں لے لیتی ہے۔ جس کے بعد ایک۵۵؍ سالہ معمر شخص ایوب خان وڈارا کالونی میں مصالحت کیلئے جاتے ہیں لیکن سندیپ نامی سب انسپکٹر کی موجودگی میں وڈارا سماج کے افراد انہیں بری طرح زد و کوب کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ بیہوش ہو جاتے ہیں، جبکہ ان کی موت کی افواہ پھیل جاتی ہے۔ کچھ ہی منٹوں میں تقریباً ۲۰۰؍ مسلم نو جوان جمع ہو جاتے ہیں۔ لیکن بزرگوں کے سمجھانے کے بعد معاملہ ٹل جاتا ہے۔اس کے بعد گونڈ سماج کے ایک فرد کو ونجارا سماج کے کچھ لوگ جبراً شراب پلا کر اسے زد و کوب کرتے ہیں، اور خود ہی یہ افواہ اڑا دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک ادیواسی کو مارا پیٹا۔لیکن پولیس بنا کسی تحقیق کے ۷۶؍مسلم لڑکوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لیتی ہے۔لیکن ہائی کورٹ اسے سیاسی تصادم قرار دے کر انہیں ضمانت دے دیتی ہے۔اس کے بعد بی جے پی اور اس کی حمایت یافتہ تنظیموں کے ذریعے، مسلمانوں اور قبائیلی سماج کے مابین کشیدگی پیدا کرنے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر دیاجاتا ہے۔جس کا نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
اس رپورٹ کے آخر میں کچھ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ ضلع انتظامیہ کو وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے۔ کیونکہ فساد پر قابو پانے سے کہیں بہتر ہے فساد برپا ہونے سے روکنا ۔