• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فیضان احمد کی موت خودکشی نہیں بلکہ بہیمانہ قتل ہے: فورنسک تحقیق میں انکشاف

Updated: June 15, 2024, 4:30 PM IST | Kolkata

دوسرے پوسٹ مارٹم کے بعد فورنسک ماہرین نے آئی آئی ٹی طالب علم فیضان احمد کے بہیمانہ قتل کی تصدیق کی۔ اس سے پہلے عدالت نے ماہرین سے حتمی رپورٹ درج کرنے کو کہا تھا جبکہ اہل خانہ اور وکلاء نے اس سے قبل کی گئی ایس آئی ٹی کی خود کشی کے نظریئے سے تحقیقات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

Deceased Faizan Ahmed. Photo:X
مقتول فیضان احمد ۔ تصویر:ایکس

دوسرے پوسٹ مارٹم کے بعدیہ انکشاف ہوا کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کھڑگپور کے طالب علم فیضان احمد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک سال بعد تحقیق میں کلکتہ ہائی کورٹ کے سامنے ایک چونکا دینے والا انکشاف ہوا کہ فیضان کے سر پر تیز دھار ہتھیار سے گردن کے حصے میں وار کیا گیا اور پھر پیچھے سے گردن پر قریب سےگولی ماری گئی۔کلکتہ ہائی کورٹ آئی آئی ٹی میکانیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال کے طالب علم فیضان احمد کے کیس کی سماعت کر رہی ہے، جس کی جزوی طور پر بوسیدہ لاش ۱۴؍اکتوبر۲۰۲۲ءکو کے جی پی آئی آئی ٹی کیمپس کے اندر اس کے ہاسٹل سے برآمد ہوئی تھی۔ بازیابی کے فوراً بعد حکام، ساتھ ہی کھڑگپور پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ فیضان نے خودکشی کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: گجرات: وڈودرا کی ایک کالونی میں مسلم خاتون کو گھر الاٹ کئے جانے پر احتجاج

جب اس کی موت کی چونکا دینے والی خبر اہل خانہ تک پہنچی اور وہ کھڑگپور پہنچے تو لاش کو دیکھ کر انہوں نے دلیل دی کہ ان کا بیٹا خودکشی نہیں کرسکتا اور یہ قتل ہے۔ پہلی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد کھڑگپور پولیس نے بھی یہی دعویٰ دہرایا۔ تاہم پوسٹ مارٹم میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ ۲۳؍سالہ نوجوان کی موت کیسے ہوئی۔ اس کے بعدوالدین نے کلکتہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت نے فورنسک ماہر ڈاکٹر اجے گپتا کو مقرر کیا جنہوں نے دوسرے پوسٹ مارٹم کی سفارش کی۔ تازہ پوسٹ مارٹم میں انکشاف ہوا کہ فیضان کا معاملہ قتل کی نوعیت کا تھا۔ جسٹس راج شیکھر منتھا کی عدالت نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) بھی تشکیل دی اور کہا کہ مستقبل کی تحقیقات قتل کے نقطہ نظر سےہو گی۔لیکن کولکتہ پولیس ایس آئی ٹی کی جانچ کو روکنے کیلئے ڈویژن بنچ کے پاس گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ آئی آئی ٹی کے جی پی بھی اس کیس کو منسوخ کرنے کیلئے ڈویژن بنچ کے پاس گیا تھا۔ تاہم، چیف جسٹس ٹی ایس سیواگننم اور جسٹس ہیرنمائی بھٹاچاریہ کی ڈویژن بنچ نے سنگل بنچ کے حکم کو برقرار رکھا، جس نے فیضان احمد کی موت کو قتل قرار دیا تھا اور آئی پی ایس افسر کے جے رامن کی قیادت میں ایس آئی ٹی تحقیق  کوجاری رکھا ۔

ایس آئی ٹی کا اب تک کا کردار
آسام کے تینسوکیا کے رہائشی فیضان احمد کے قتل کی تحقیقات کا حکم ۱۴؍جون ۲۰۲۳ءکو دیا گیا تھا۔ اور کیس کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے جسٹس منتھا نے ملزم کے نارکو ٹیسٹ کا بھی حکم دیا تھا۔ لیکن ایس آئی ٹی نے اکتوبر میں ہی اس کیس کو بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ اہم بات یہ ہے کہ عدالت کے اس حکم کے بعد بھی کہ قتل کے زاویے سے جانچ کی جائے تفتیشی ایجنسی نے خودکشی کے نظریے پر ہی جانچ جاری رکھی۔

پچھلی سماعت میں کیا ہوا؟
فورنسک ماہر ڈاکٹر گپتا نے ۲۱؍مئی کو جسٹس جوئے سینگپتا کی عدالت میں اپنی تفصیلی پوسٹ مارٹم رپورٹ جمع کرائی اور بتایا کہ فیضان کو پہلے تیز دھار ہتھیار سے، گردن میں وار کیا گیا اور پھر اس کے پیچھے سے بالکلقریب سے گولی ماری گئی۔ اس کے بعد، عدالت نے ایس آئی ٹی کو حکم دیا کہ وہ متاثرہ کی گردن کے باہری دائیں جانب کے اوپری حصے کی ویڈیو اور اسٹیل فوٹو جمع کرے۔ ایس آئی ٹی کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ ڈاکٹر گپتا سے مشورہ کرے، جنھیں اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنی ہوگی اور اس کیلئےضروری دستاویزات اور مدد فراہم کرنی ہوگی۔جس کی انہیں ضرورت ہے۔ اور اب سماعت جسٹس امرتا سنہا کی عدالت میں ہوگی۔ جسٹس سنہا نے ۱۳؍جون کو اس کی سماعت کرنی تھی، لیکن مقدمہ درج فہرست نہیں ہوا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: گجرات ہائی کورٹ کی یش راج کی فلم مہاراج پر پابندی، یش راج فلمز اور نیٹ فلیکس کو نوٹس جاری

فیضان کی والدہ ریحانہ احمد نے فون پر ای نیوز روم کو بتایاکہ ’’آئی آئی ٹی کھڑگپور کے حکام اور ایس آئی ٹی کو میرے بیٹے کے قتل کے تعلق سے کئی سوالوں کےجوابات دینے ہوںگے۔ اور اگر مجھے انصاف نہیں ملتا، تو اس کا مطلب ہے کہ کسی ماں کا کوئی بچہ بھی آئی آئی ٹی میں محفوظ نہیں ہے۔‘‘ فیضان کے وکیل رنجیت چٹرجی نے ای نیوز روم کو بتایا کہفورنسک ماہر کی تفصیلی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہمارے موقف کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ قتل کا ایک واضح معاملہ تھا۔ اپنی رپورٹ میں مغربی مدنی پور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ دنیش کمار نے ذکر کیا ہے کہ فیضان کی خون میں لت پت لاش اس کے کمرےمیں پائی گئی تھی، جو صرف اس دعوے کو ثابت کرتی ہے کہ اسے چاقو مارا گیا اور گولی ماری گئی، اس سمت میں اب تک ایس آئی ٹی نے تحقیقات کیوں نہیں کی، اس پر بھی عدالت کوتوجہ دینا چاہئے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK