• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فرانس: پیغمبر اسلام کے کارٹون کی تشہیر کرنے والے ٹیچر سے اسکول موسوم

Updated: October 18, 2024, 10:06 PM IST | Paris

فرانس میں ایک اسکول کو اس معلم کے نام موسوم کر دیا گیا ہے جسے پیغمبر اسلام کا کارٹون اپنی کلاس میں لہرانے کی پاداش میں ایک چیچن نوجوان نے قتل کر دیا تھا۔ فرانس میں مذہبی شخصیات کی تضحیک قانونی طور پر جائز ہے- یاد رہے کہ کارٹون شائع کرنے والے جریدے کے دفتر پر ہوئے حملے میں ۱۲؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

 Samuel Paty. Photo: X
سیموئل پیٹی تصویر: ایکس

فرانس میں ایک اسکول اس ٹیچر سے موسوم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس نے پیغمبر اسلام کا کارٹون اپنی کلاس میں دکھا کر اس پر تبصرہ کیا تھا۔ ٹیچر کا نام سیموئل پیٹی ہے، جسے ایک پناہ گزین چیچن نوجوان عبدالخ انزوروف نے گلا کاٹ کر قتل کر دیا تھا۔ ۴۷؍ سالہ پیٹی جو ثانوی اسکول میں تاریخ اور جغرافیہ کا معلم تھا، جسے اس اسکول کے قریب ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو قتل کر دیا گیا تھا، جس میں وہ بحیثیت معلم ملازم تھا۔ اسے قتل کرنے والے نوجوان کو پولیس نے موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ:’را‘ کے سابق افسرپرسکھ علاحدگی پسند کے قتل کی ناکام سازش میں فرد جرم عائد

دراصل سوشل میڈیا پر ایک میسج وائرل ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اس معلم نے طنز و مزاحیہ جریدے چارلی ہیبدو میں شائع پیغمبرﷺ کے کارٹون طلبہ کے سامنے لہرایا تھا۔ حالانکہ سرپرستوں کی کچھ تنظیموں نے اسکول کا نام پیٹی کے نام پر رکھنے کو مزید کچھ سال ٹالنے کا مطالبہ کیا ہے، ان کا جواز تھا کہ اس طرح وہ تمام طلبہ جو پیٹی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، ان کے ذہنوں میں وہ خوفناک یادیں دوبارہ تازہ ہو جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ۲۰۲۵ء کے درمیان کیا جائے جب وہ تمام طلبہ اسکول پاس کر چکے ہوں گے۔مئیر کولکھے خط میں سرپرستوں نے کہا کہ’’ بچوں کو ان یاد داشت سے گزرنا ہوگا، جو ناقابل تصور ہے۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: بہرائچ تشدد : اقلیتی فرقہ کے ۲؍نوجوانوں کا انکائونٹر، اسپتال داخل

واضح رہے کہ پیٹی چارلی ہیبدو میں شائع کارٹون کو کلاس میں فرانس میں آزادی اظہار رائے پر تبصرہ کرنے کے مقصد سے لایا تھا، جہاں مذہبی شخصیات پر طنز و مزاح کو جائز قرار دیا گیا ہے، اور اس طرح کے کارٹون کی طویل تاریخ ہے۔ پیٹی کا قتل چارلی ہیبدو کے ذریعے پیغمبرﷺ کے کارٹون کو دوبارہ شائع کرنےکے ایک ہفتے بعد ہی کر دیا گیا۔جبکہ ۲۰۱۵ء میں جب اس جریدے نے کارٹون دوبارہ شائع کئے تو ایک مسلح فرد نے اس کے دفتر پر حملہ کرکے اس کے مدیر اور کارٹونسٹ سمیت ۱۲؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK