غزہ میں گزشتہ ۱۳ ؍ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ کے دوران دیکھ بھال کے مراکز تک رسائی کی کمی نے بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے، جس کے باعث ان خرابیوں کا جلد پتہ لگانا مشکل ہوگیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 19, 2024, 10:10 PM IST | Gaza
غزہ میں گزشتہ ۱۳ ؍ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ کے دوران دیکھ بھال کے مراکز تک رسائی کی کمی نے بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے، جس کے باعث ان خرابیوں کا جلد پتہ لگانا مشکل ہوگیا ہے۔
غزہ میں انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، گزشتہ ۱۳ ؍ماہ سے زائد عرصہ سے جاری اسرائیلی بمباری کے باعث حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کو شدید طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ڈاکٹروں اور بین الاقوامی تنظیموں کی متعدد طبی رپورٹس نے غزہ میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور ضروری سامان کی شدید قلت کے نتیجے میں پیدائشی نقائص، اسقاط حمل، اور نوزائیدہ بچوں کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ کی نشان دہی کی ہے۔
سفید فاسفورس کے اثرات
جبالیہ سے تعلق رکھنے والی ثمر ہمدان، جنگ کے تباہ کن نتائج کا سامنا کررہی ہیں۔ ان کی بیٹی نور، ہاتھ پاؤں کی عدم موجودگی جیسی شدید پیدائشی خرابی کے ساتھ قبل از وقت پیدا ہوئی ہے۔ حمدان نے اپنی بیٹی کی اس حالت کا ذمہ دار سفید فاسفورس کو قرار دیا۔ ثمر نے بتایا کہ جب وہ تین ماہ کی حاملہ تھیں، تب شمالی غزہ پر فاسفورس گیس کے ساتھ حملہ کیا گیا تھا جس کے متاثرین میں وہ بھی شامل تھیں۔ شہری علاقوں میں سفید فاسفورس کے استعمال کی طویل مدتی صحت پر مضر اثرات اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اسرائیل کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سفید فاسفورس کے سنگین اثرات کے مدنظر بین الاقوامی قانون کے تحت اس جنگی و کیمیائی ہتھیار کا استعمال ممنوع ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: فلسطینی این جی او کا عدالت سے اسرائیل کو ایف ۳۵؍پرزے روکنے کا مطالبہ
پیدائشی خرابیوں میں اضافہ
غزہ میں کام کر رہے ڈاکٹرس، نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی خرابیوں میں زبردست اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس میں نوزائیدہ یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر حاتم عضیر نے گزشتہ چند ماہ کے دوران شدید پیدائشی نقائص کے ۱۷۰ ؍سے زیادہ کیسز رپورٹ کئے ہیں۔ ان پیدائشی خرابیوں میں پھیپھڑوں، کھوپڑی اور نظام انہضام کی خرابی، ہائیڈروسیفالس (دماغ میں سیال کا جمع ہونا)، نقل مکانی اور تباہ شدہ طبی سہولیات کی وجہ سے بچوں کی قبل از پیدائش شامل ہیں۔ جنگ کے دوران دیکھ بھال کے مراکز تک رسائی کی کمی نے بحران کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے، جس کے سبب ان خرابیوں کا جلد پتہ لگانا مشکل ہوگیا ہے۔
اسقاط حمل اور زچگی کی صحت کے بحران
غزہ کی بے گھر خواتین میں شدید غذائی قلت اور بڑھتے ذہنی تناؤ کے باعث اسقاط حمل میں اضافہ ہوا ہے۔ مروہ مرتضیٰ، جو دیر البلاح کے ایک کیمپ سے بے گھر ہوگئیں، نے حمل کے دوسرے ماہ میں ناکافی غذائیت اور فولک ایسڈ اور وٹامنز جیسی مستحکم ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے بچے کو کھو دیا۔ ناصر میڈیکل کمپلیکس کے ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر مہر کاوارے نے انکشاف کیا کہ جنگ سے قبل روزانہ اسقاط حمل کے ۲ ؍کیس ہوتے تھے۔ جنگ کے بعد وہ روزانہ ۱۰ ؍کیس ہینڈل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے پیچھے جنگ کے سبب دائمی تناؤ، غذائیت کی کمی اور نقل مکانی کو بنیادی وجوہات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں ۹۵ ؍فیصد حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں جو کم غذائیت والی خوراک پر زندہ ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی لبنان میں متعدد مقامات پر بمباری
صحت کا نظام تباہ
غزہ کا طبی نظام تقریباً تباہ ہوچکا ہے جس سے غزہ کے طبی بحران کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔ غزہ کے اسپتال، نوزائیدہ بچوں کے لئے حفظان صحت کی اشیاء اور ویکسین کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ناقص غذائیت سے دوچار فلسطینی خواتین، ایسے بچوں کو جنم دے رہی ہیں جن کے وزن کم ہیں اور ان کے اعضاء کی مکمل نشوونما نہیں ہوتی۔ ایسے بچوں کی پیدائش کے سب نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
عالمی برادری سے اپیل
متعدد تنظیموں نے غزہ کے بنیادی طبی ڈھانچہ کی تباہی اور حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کے لئے بین الاقوامی تحفظ کی کمی کو سنگین قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ڈاکٹر کاوارے نے زور دیا کہ ان میں سے بہت سی اموات اور پیچیدگیوں کو مناسب وسائل اور مدد سے روکا جا سکتا ہے۔ زچگی اور نوزائیدہ کے مسائل میں خطرناک اضافہ سے جاری تنازع کی تباہ کن انسانی قیمت کو نمایاں کرتا ہے۔ غزہ کا نظامِ صحت، انتہائی کمزور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔