• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

تل ابیب عالمی عدالت پر دباؤ ڈال رہا ہے: اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ

Updated: August 15, 2024, 10:03 PM IST | Jerusalem

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل، وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور وزیر دفاع گیلنٹ کے خلاف عالمی فوجداری عدالت کے گرفتاری وارنٹ جاری کرنے میں تاخیر چاہتا ہے۔ اسرائیلی عہدیدار عدالت کے ممکنہ اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

International Court of Justice. Image: X
عالمی عدالت۔ تصویر: ایکس

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل، عالمی فوجداری عدالت پر غزہ میں سنگین جنگی جرائم کیلئے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوا گلنت کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے میں تاخیر کرنے کا دباؤ بنارہا ہے۔ سرکاری ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تل ابیب دی ہیگ میں واقع عالمی عدالت پر سفارتی دباؤ بنارہا ہے۔ ہاریٹز اخبار نے بدھ کو کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس طرح کے اقدامات ججز کے فیصلے کو متاثر کریں گے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: مہلوکین کی تعداد ۴۰؍ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے: فلسطینی وزارت صحت

ہاریٹز کے مطابق اسرائیلی عہدیدار عالمی عدالت کے اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا عدالت فلسطین اسرائیل مسئلہ سے جڑے معاملات پر حکم جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے یانہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل، عالمی فوجداری عدالت کا ممبر نہیں ہے جبکہ فلسطین کی ممبرشپ ۲۰۱۵ میں قبول کی گئی تھی۔

۲۰ مئی کو عالمی فوجداری عدالت کے وکیل استغاثہ کریم خان نے کہا تھا کہ انہوں نے عدالت سے غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے پر نیتن یاہو اور گلنت کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ واضح رہے کہ وارنٹ جاری کرنے سے قبل عالمی عدالت، درخواست شدہ وارنٹ کے متعلق مختلف ممالک اور تنظیموں کی قانونی رائے کا جائزہ لے گی۔

یہ بھی پڑھئے: یہ نفرت، تشدد کی علامت ہے: نیویارک میں انڈیا پریڈ ڈے سے رام مندر رتھ ہٹایا گیا

عالمی فوجداری عدالت کا قیام ۲۰۰۲ میں عمل میں آیا تھا۔ یہ ایک آزاد عالمی ادارہ ہے جو اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی ادارہ سے منسلک نہیں ہے۔ عدالت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ اسرائیل بھلے ہی عدالت کے اختیارات کا انکار کریں، لیکن ۱۹۶۷ کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقے عالمی عدالت کی حد میں آتے ہیں اس طرح عالمی عدالت میں ان علاقوں میں ہوئے جرائم پر اسرائیلی عہدیداروں پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK