Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر ۱۰۳؍ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتاررہا ہے: یورومیڈ مانیٹر

Updated: March 28, 2025, 11:48 PM IST | Gaza

حقوق انسانی کے ادارے یورومیڈ ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’۱۸؍مارچ ۲۰۲۵ء کے بعد اسرائیل نے روزانہ کی بنیاد پر ۳۰۸؍ فلسطینیوںکو قتل کیا ہے جبکہ ۲۲۳؍فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۵ءکو اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ اپنے حملے شروع کئے تھے۔

Thousands of Palestinians have lost their lives as a result of the Israeli aggression. Photo: X
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ تصویر: ایکس

یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے ذریعے جمعرات کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’۱۸؍ مارچ ۲۰۲۵ءکو غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کی شروعات ہونے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ۱۰۳؍ فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے جبکہ ۲۲۳؍فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: سائبرکرائم روکنے کیلئے ۷ء۸۱؍ لاکھ سم کارڈ اور۸۳؍ ہزار وہاٹس ایپ اکاؤنٹ بلاک

ادارے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’’اسرائیل نے ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۵ء کے بعد بھی غزہ میں اپنے حربے آزمانا بند نہیں کئے ہیں اور ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ءکے بعدسےفلسطینیوں کی زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے جن میں غیر قانونی طور پر پابندی اور بھکمری شامل ہے۔‘‘ یاد رہے کہ ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۵ءکو اسرائیل نے دوبارہ غزہ میں اپنی جارحیت کی شروعات کی تھی جس کے نتیجے میں ۸۵۵؍ فلسطینی جاں بحق جبکہ تقریباً ایک ہزار ۹۰۰؍زخمی ہوئے تھے۔ اسرائیل نے ۱۹؍ جنوری ۲۰۲۵ءکوہونے والے جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کو تباہ کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اسرائیلی حملے اس وقت سامنے آئے ہیں جبکہ اسرائیل غزہ کی سرحد پر پابندی عائد کرنے کی شروعات کی تھی اور فلسطینی خطے میں خوراک اورپانی کی سپلائی روک دی تھی جس کے سبب غزہ کی ۴ء۲؍ ملین آبادی بھکمری کا سامنا کررہی ہے۔ 

غزہ جنگ کے نتیجے میں کروڑوں فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ تصویر: ایکس

انسانی حقوق کے ادارے نے کیا کہا
انسانی حقوق کے ادارے نے کہا کہ ’’اسرائیلی فوج نے غزہ پر بمباری جاری رکھی ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔‘‘ ادارے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’’اسرائیل نے بغیر کوئی جواز پیش کئے بغیر جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا جاری رکھا ہے۔ روزانہ خیموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں شہریوں نے ۱۸؍ماہ سے نسل کشی کی جنگ سے حفاظت کیلئے گزشتہ ۱۸؍ماہ سے پناہ لی ہوئی ہے۔یہ اسرائیل کی ’’منظم طریقے سے فلسطینیوں کو قتل کرنے کی پالیسی ‘‘ کا حصہ ہے جس کا مقد فلسطینیوں کی زندگی تباہ کرنا ہے۔‘‘

ہزاروں فلسطینیوں نے اپنے بچوں کو کھودیا ہے۔ تصویر: ایکس 

’’غیرانسانی تنازع‘‘
یورومیڈمانیٹر نے مختلف بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاہے کہ ’’فلسطینی شہریوں کو اس وقت بھی قتل کیا گیا جب وہ اسرائیلی فوج سے اپنی جان کی حفاظت کر کے بھاگ رہے تھے اور سڑکوں پرلاشیں بے یارومددگار پڑی ہوئی ہیں۔‘‘ ادارے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ’’اسرائیلی فوج نے تقریباً ۵۰؍ہزار فلسطینی شہریوں کو رفح کے ایک چھوٹے سے جغرافیائی علاقے تک محدود کردیا ہے جبکہ اسرائیلی فوج نےفلسطینیوں پر اپنی بمباری، چھاپے مارنا اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا جاری رکھا ہے۔‘‘ ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’صرف ایک ہفتے میں اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی سے ۲؍لاکھ فلسطینی شہریوں کو ان کے گھر سے نکلنےپر مجبورکیا ہے اوردسیوں ہزاروں فلسطینیوں نے عارضی خیموںمیں پناہ لی ہے۔ اس درمیان فلسطینیوں کیلئے بنیادی اشیاء کی رسائی بھی ناممکن ہوگئی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: عالم اسلام میں عید کی تیاریاں زوروں پر، بازار سج گئے

اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کیا ہے
ادارے کے بیان کے مطابق ’’اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کو نظر انداز کیا ہے۔  اسرائیل نے ایسے قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے جو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز اور ملازمین کو خصوصی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔یہ اعلیٰ درجے کا بین الاقوامی جرم ہے۔‘‘ادارے نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور ’’غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کو روکنے کیلئے اقدام کریں۔‘‘یاد رہے کہ اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ۵۰؍ہزار ۲۰۰؍ فلسطینیوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جبکہ ایک لاکھ ۱۳؍ ہزار۹۰۰؍فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔‘‘بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یووو گیلنٹ کے خلاف حراستی وارنٹ جاری کیا تھا۔اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے داخل کئے گئے نسل کشی کے مقدمے کا سامنا بھی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK