• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بیباس بچوں کی موت پر سوگ، فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموشی، انٹرنیٹ صارفین برہم

Updated: February 22, 2025, 10:39 PM IST | Gaza

بیباس بچوں کی موت پر سوگ، فلسطینی بچوں کے قتل پر خاموشی، انٹرنیٹ صارفین برہمعالمی برادری کے دہرے رویے پر انٹرنیٹ صارفین برہم ہیں۔ اسرائیلی خاندان بیباس کے ۲؍ بچوں کی موت پر دنیا سوگ منارہی ہے مگر اسرائیل نے کم و بیش ۱۸؍ ہزار فلسطینی بچوں کا قتل کردیا، جس پر دنیا خاموش تماشائی بنی رہی ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

جہاں ایک طرف دنیااسرائیل کو حماس کی جانب سے لوٹائے گئے اسرائیلی یرغمالوں، جن میں ایک خاتون اور ان کے دو بچے بھی شامل ہیں، کے تعلق سے ردعمل کااظہار کر رہی ہےوہیں غزہ میں نسل کشی کی جنگ میں ہلاک ہونےو الے فلسطینی بچوں کی لاشیں اب بھی اسرائیلی حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتوں اور گھروں کے ملبے میں دبی ہیں۔ ۱۹؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کے نافذہونے کے بعدبھی فلسطینی ملبے سے اپنے پیاروں کی لاشیں نکالنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ان لاشوں میں سے کئی کی صرف ہڈیاں باقی رہ گئی ہیں کیونکہ غزہ کے فلسطینیوں کے پاس لاشیں نکالنے کیلئے استعمال کئے جانے والے ہتھیاروں اور بھاری مشینوں کی کمی ہے۔ستم ظریقہ یہہ کہ اسرائیل نے غزہ میں آلات اور مشینوں کی درآمدات کو ناممکن بنا دیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: میرٹھ: آر آر ٹی ایس کیلئے راستہ بنانے کیلئے ۱۵۰؍ سال پرانی مسجد منہدم کی گئی

یاد رہے کہ جمعرات کو فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے ۴؍ کوفین اسرائیل کے حوالے کئے تھے جن میں اسرائیلی یرغمال شیری بیباس، کیفر بیباس، ایریل بیباس اور ایک اسرائیلی قیدی اوڈ لفشٹزکی لاشوں کی باقیات تھیں۔ حماس نے  لفشٹزاور بیباس خاندانوں کیلئے جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ آپ کے پیارے زندہ آپ کے پاس لوٹیںلیکن آپ کی فوج نے ۱۷؍ ہزار ۸۸۱؍ فلسطینی بچوں کے ساتھ انہیں بھی ہلاک کر دیا تھا۔‘‘غزہ کی تباہ کن عمارتیں اب اجتماعی قبریں بن گئی ہیں۔ ان عمارتوں کے ملبے میں آج بھی ان فلسطینی بچوں کی لاشیں دفن ہیں جنہیں اب تک نکالا نہیں جاسکا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: بیباس خاندان نے نیتن یاہو پر یرغمالوں کی حفاظت میں ناکامیابی کا الزام عائد کیا

مثال کے طور پر کچھ فلسطینیوں نے تقریباً ایک سال پہلے ایک تباہ کن دیوار پر لکھا تھا ’’عمر، عبداللہ اور ماسا کی لاشیںدبی ہوئی ہیں۔‘‘ملبے پر ان بچوں کے ٹوٹے ہوئے کھلونے آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں جو دنیا کیلئے اشارہ ہے کہ اسرائیل حملے سے پہلے یہ بچے ان گھروں میں رہتے تھے۔‘‘ہیومن رائٹس رپورٹس کے مطابق ’’اسرائیل نے غزہ کے کسی گھر کو نشانہ بنانے سے قبل اپنی تکنیکی صلاحیتوں سے یہ تفصیلات حاصل کی تھیں کہ اس گھر میں کون کون ہے۔‘‘اسرائیلی بندوقوںکی وجہ سے ہلاک ہونےو الے بچوں کی چیخیں اور ان کی ماؤںکی آہ و بکا آج بھی فلسطینیوں کے کانوں میں گونجتی ہے لیکن دنیا نے بڑے پیمانے پر بچوں کے خلاف ہونے والے قتل عام کونظر انداز کیا ۔ہیومن رائٹس کی رپورٹس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے اعدادوشمار میں تخفیف کی گئی اوران بچوں کے قتل کی نہ کبھی تفتیش کی گئی اور نہ کبھی انہیں انصاف ملا۔

قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کا قتل 
۱۰؍نومبر ۲۰۲۳ءکو اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کے الناصر اسپتال پردھاوا بول دیا تھاجس کے بعد گولیوں کی زدمیں اسپتال کے طبی عملے کو انخلاء پر مجبور کیا گیاتھا۔ فوجیوں نے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کا انخلاء کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے پانچ فلسطینی بچوں کی موت ہوگئی تھی۔غزہ کے الناصر اسپتال سے اسرائیل کے نکلنے کے بعد انکیوبیٹرز اور اسپتال کے بستروں پر مہلوک بچوں کی گلی ہوئی لاشیں ملی تھیں۔ اسرائیلی فوج نے ان بچوں کیلئے ’’زندگی بچانے والے علاج‘‘ تک رسائی ختم کر دی تھی۔ 

یوسف: گھنگھریالے بالوں والا بچہ
۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ءکو غزہ کے ایک اسپتال میں ۷؍ سالہ بچےیوسف کی والدہ اپنے بیٹے کو مہلوک اور زخمی افراد کے درمیان تلاش کرتے ہوئے آہ وزاری کر رہی تھی۔ دل دہلا دینے والا ایک ویڈیو، جسے سوشل میڈیاپر شیئر کیا گیا ہے، میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یوسف کی والدہ خوف و ہراس میں ہےاور ڈاکٹروں سے دریافت کر رہی ہے کہ کیا انہوں نے اس کے بچے کا علاج کیا ہے۔ویڈیو میںیوسف کی والدہ اپنے ۷؍سال کے بیٹے کو تلاش کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ’’یوسف، گھنگھریالے بال والا اور پیارابچہ۔’’کچھ گھنٹے بعد یوسف کی والدہ اسپتال کے مردہ خانے میں یوسف کی لاش کو دیکھ کر بدحواس ہوگئی تھی جو اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوا تھا۔‘‘

ریم: ’’سول آف مائی سول‘‘
نومبر ۲۰۲۳ء میں ۳؍سالہ فلسطینی بچی ریم اور اس کے بھائی طارق کی موت ہوگئی تھی۔ ریم اورطارق کے دادا خالد نبھان ، جنہیں ’’ابودیا‘‘ بھی کہتے ہیں، نے ان کی موت کا غم منایا تھا جس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

۱۶؍ دسمبر ۲۰۲۴ءکو خالد نبھان بھی اسرائیلی حملےمیں جاں بحق ہوگئے تھے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہےکہ ریم اور طارق کی موت کے بعد خالد نبھان نے ریم کی نعش کو اپنے سینے سے لگایاتھا اور اسے  بوسہ لے رہے ہیں۔وہ ریم کی نعش کو اپنے ہاتھوں میں لئے آہ و زاری کر رہے تھے کہ ’’یہ میری ’’روح الروح‘‘ تھی۔ خالد نبھان ریم کو سول آف مائی سول اس لئے کہتے تھے کیونکہ ریم اور ان کی سالگرہ ایک دن آتی تھی۔

’’یہ خواب ہے یا حقیقت‘‘
دسمبر ۲۰۲۳ءکو سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہواتھا جس میں ایک فلسطینی بچی کو ملبے سے نکالا گیا تھا۔ ملبے سے نکالنے جانے کے بعد بچی نے غیر یقینی طور پر ڈاکٹروں سے سوال کیا ’’انکل یہ خواب ہے یا حقیقت؟

‘‘ڈاکٹروں نے اسے یقین دہانی کروائی کہ ’’گھبراؤ مت، تم محفوظ ہو۔‘‘ بچی پھر بھی دہشت زدہ تھی۔ اس نے دوبارہ کہا ’’ مجھے معلوم ہے کہ میں محفوظ ہوں۔ لیکن مجھے بتایئے یہ خواب ہے یا حقیقت؟‘‘

’’یہ میری امی ہیں، میں انہیں بالوں سے پہنچانتی ہوں‘‘
اکتوبر ۲۰۲۴ء کوایک ویڈیووائرل ہوا تھا جس میں ایک بچی اسرائیلی حملےمیں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوںکے درمیان اپنی ماں کی نعش دیکھ کر زاروقطار ورہی تھی ۔ طبی عملے کے یہ دلاسہ دینے کے بعد بھی کہ یہ لاش اس بچی کی ماں کی نہیں ہے  بچی ہچکیاں لیتے ہوئے اصرار کر رہی تھی کہ ’’یہ وہی ہیں۔ میں سچ کہہ رہی ہوں کہ یہ وہی ہیں۔ میں ان کے بالوں سے انہیںپہچانتی ہوں۔‘‘بچی روتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، امی۔ آپ مجھے چھوڑ کر کیوں جارہی ہیں۔‘‘

بعد ازیں اس بچی نے بتایا تھا کہ اسرائیلی حملے میں اس کی والدہ سمیت اس کی بہن بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔ اس نے روتے ہوئے کہا ’’وہ (اسرائیلی فوج) نہیں رکے۔ انہوں نے میری دادی، دادا، چچی ، ان کے بچوں، میری امی اور میری بہن کو قتل کردیا۔‘‘ بچی کو دلاسہ دینے کیلئے اس کے بھائی نے اس سے کہا ’’وہ شہید ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے روتے ہوئے جواب دیا ’’مجھے معلوم ہیں کہ وہ شہید ہوگئے ہیں لیکن میں یہ برداشت نہیں کرسکتی ہوں۔ انہوں نے ہم پر رحم نہیں کیا۔ ہم ان کے ساتھ کیا کریں؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK