Updated: August 02, 2024, 9:45 PM IST
| Jerusalem
اسرائیل کے ٹی وی براڈکاسٹر چینل ۱۲؍ کے عرب معاملات کے مبصر اوہاد ہامو نے کہا کہ ’’حماس ایسی تنظیم ہے جو بدلہ لینا جانتی ہے۔ مہلوکین کی بڑی تعداد کے باوجود یہ اتنے وقت میں مستحکم تنظیم اور اہم دشمن بن کر ابھری ہے۔ اسرائیل اب بھی حماس پر فتح حاصل کرنے سے بہت دور ہے۔‘‘
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کا ۶۰؍ فیصد ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔ تصویر: ایکس
اسرائیل کی جانب سے کئے گئےتبصرےکے مطابق اسرائیل غزہ میں اپنی ۳۰۰؍ دنوں پر مبنی جنگ کے باوجود اب بھی فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس پر فتح حاصل کرنے سے بہت دور ہے۔جمعرات کو ٹی وی براڈکاسٹر چینل ۱۲؍ کے عرب معاملات کے مبصر اوہاد ہامو نے کہا کہ ’’حماس ایسی تنظیم ہے جو بدلہ لینا جانتی ہے۔ مہلوکین کی بڑی تعداد کے باوجود یہ اتنے وقت میں مستحکم تنظیم اور اہم دشمن بن کر ابھری ہے۔ مقامی ۱۰۳؍ ایف ایم ریڈیو پر ہامو کا یہ ردعمل اسرائیل کے حماس کے لیڈرمحمد دیف کے قتل کا دعویٰ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جبکہ فلسطینی مزاحمتی گروپ نے ان کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: منیلا، فلپائن: چائنا ٹاؤن کی قدیم عمارت کے ایک حصے میں آتشزدگی، ۱۱؍ افراد ہلاک
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسرائیلی جنگی مشین کو نقصان پہنچے کے ۱۰؍ ماہ بعد اب بھی فلسطین میں اہم قیادت باقی ہے جو حماس ہےجو خاص طور پر مرکزی غزہ اور غزہ کے جنوبی حصوں پر غالب ہیں۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ جنگ کے ۱۰؍ ماہ بعد حماس کا متبادل سامنے آئے گا لیکن آج کیا ہوا ہے؟ ہزاروں نئے افراد حماس میں بھرتی ہو رہے ہیں۔‘‘ ہامو نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ ’’اچھی خبر بھی ہے اور بری بھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اچھی خبر یہ ہے کہ حماس اپنے کئی جنگجو کھو رہا ہے جبکہ بری خبر یہ ہےکہ نوجوان افراد کے پاس حماس میں شمولیت اختیار کرنےکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’اسرائیل کو چاہئے کہ وہ غزہ کے نوجوانوں کو حماس کے علاوہ کسی دوسری تنظیموں میں شامل ہونے پر آمادہ کرےاور تل ابیب یہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسرائیل اب بھی حماس کو شکست دینے سے بہت دور ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۷ء کے درمیان ’ال نینو‘ ہندوستان میں ہیضہ کا سبب رہا ہوگا: تحقیق
خیال رہے کہ اب تک اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ۳۹؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق جبکہ ۹۱۲؍ ہزار سے زائد افرادزخمی ہوئے ہیں۔ عالمی برداری کے مطالبات اور اقوام متحدہ(یواین) کی قرارداد کو نظر انداز کرنے کیلئے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لانسیٹ نامی جرنل میں شائع کردہ اسٹڈی کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جنگ کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ حقیقی مہلوکین کی تعداد ایک لاکھ ۸۶؍ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ تل ابین کے غزہ پٹی میں انسانی امداد کی رسائی میں رکاوٹ بننے کی وجہ سے فلسطینی شدید غذائی قلت اور پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو نسل کشی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔ تاہم، امریکی انتظامیہ کو بھی اسرائیل کو مکمل تعاون فراہم کرنے کیلئے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔