• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ: اسراء ابومصطفیٰ کا چھوٹا سا کلاس روم فلسطینی بچوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے کا اہم متبادل

Updated: September 05, 2024, 10:22 PM IST | Jerusalem

اسرائیلی حملوں کے درمیان غزہ کی زیادہ تر اسکولیں اور یونیورسٹیاں ملبےمیں تبدیل ہوچکی ہیں یا بے گھر فلسطینیوں کیلئے پناہ گاہ بن گئی ہیں۔ اس درمیان اسراء ابومصطفیٰ کے چھوٹے سے کلاس روم نے فلسطینی بچوں کیلئے تعلیم کی امید جگائی ہے۔ ان کے چھوٹے سے کلاس روم میں ۷۰؍ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

Most UN schools have become havens for Palestinians. Photo: X
یو این کے زیادہ تر اسکول فلسطینیوں کیلئے پناہ گاہ بن گئے ہیں۔ تصویر: ایکس

اسرائیلی حملوں کے سبب غزہ کی متعدد اسکولیں یا تو ملبے میں تبدیل ہوچکی ہیں یایاسیکڑوں ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کیلئے پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔ اس درمیان ٹیچر اسراء ابومصطفیٰ نے موت اور تباہی کی وجہ سے صدمے کا شکار بچوںکوتعلیم سے محروم نہیں ہونے دے رہی ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں ایک ۴؍ منزلہ عمارت ملبے میں تبدیل ہو گئی تھی جس میں ان کا گھر بھی تھا۔ اسراء ابومصطفیٰ نے اس درمیان غزہ کے بچوں کیلئے خیمے میں ہی کلاس روم بنایا ہے۔ان کا چھوٹا سا کلاس روم غزہ کے بچوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے کے باقی ماندہ متبادلات میں سے ایک ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: وقف ترمیمی بل کیخلاف ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے رائے دے

۱۰؍ سالہ ہالہ ابومصطفیٰ نے کہا کہ جنگ کے دوران ہم نے پانی کے گیلن بھرے ہیں اور آگ جلانے کیلئے لکڑیوں کا استعمال کیا ہے۔ بعد ازیں مس اسراء نے ہمیں تلاش کیا اور ہمیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے یہ موقع فراہم کیا۔ اسراء ابومصطفیٰ کی کلاس میں پہلے صرف ۳۵؍ بچے تھے جبکہ بعد میں بچوں کی تعداد بڑھ کر ۷۰؍ ہوگئی تھی۔ ان کی کلاس میں نرسری سے چھٹی کلاس کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کی عمریں ۱۱؍ تا ۱۲؍سال تک ہوتی ہیں۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ کے اسکول اسرائیلی بمباری کے سبب تباہ ہو گئے ہیں یا پناہ گاہ میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی تباہی کے سبب غزہ کے ۶؍ لاکھ ۲۵۴؍ہزار طلبہ تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں۔ فلسطین کی وزارت تعلیم کے مطابق اسکول اور یونیورسٹیوں کے تقریباً ۱۰؍ہزار ۴۹۰؍طلبہ اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: حماس نے ۱۰؍ مرتبہ میری جان بچائی، ویڈیو میں اسرائیلی یرغمال الیگزینڈر لوبانوف کا انکشاف

اسرائیلی جنگ میں یونیورسٹیوں اور اسکولوں کے ۵۰۰؍ سے اساتذہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ۴۱؍ ہزار سے زائد فلسطینی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ ۹۴؍ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ابو مصطفیٰ کی کلاس میں بچوں کو نصاب کے علاوہ دیگر چیزوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ان کی کلاس افراتفری کے دوران غزہ کے بچوں کو تعلیم کی امید فراہم کر رہی ہے۔ ۲۹؍ سالہ ٹیچر نے کہا کہ ’’ہمیں کرسیوں اور میزوں کی ضرورت ہے تا کہ بچے زمین پر بیٹھ کر لکھنے اور پڑھنے کے بجائے کلاس روم میں اچھےطریقے سے بیٹھ کر لکھ اور پڑھ سکیں۔ محدودذرائع کی وجہ سے ابومصطفیٰ بنیادی اسباق جیسے مذہبی تعلیمات، دے رہی ہیں تا کہ اسرائیلی بمباری کے درمیان ان کے طلبہ تعلیم پر توجہ دے سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک بچے کی خواہش کیا ہوسکتی ہے؟ یہی کہ انہیں محفوظ ماحول میں تعلیم کا حق حاصل ہو، وہ کھیل سکیں اور انہیں کسی بھی چیزی کا خوف نہ ہو۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK