ہندو فریقین کی درخواستوں پر مداخلت کرتے ہوئے، انجمن انتفاضہ مسجد کمیٹی، جو گیانواپی مسجد کی دیکھ بھال کرتی ہے، نے عدالت کو بتایا کہ وہ، اس قانون پر قانونی بحث میں کلیدی فریق ہے۔
EPAPER
Updated: December 06, 2024, 9:57 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
ہندو فریقین کی درخواستوں پر مداخلت کرتے ہوئے، انجمن انتفاضہ مسجد کمیٹی، جو گیانواپی مسجد کی دیکھ بھال کرتی ہے، نے عدالت کو بتایا کہ وہ، اس قانون پر قانونی بحث میں کلیدی فریق ہے۔
اتر پردیش کے وارانسی میں واقع گیانواپی مسجد کی انتظامی کمیٹی، عبادت گاہ قانون ۱۹۹۱ء کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے۔ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دائرکردہ پٹیشن میں کہا کہ عبادت گاہ قانون ۱۹۹۱ء کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے نتائج خطرناک ہوگے۔ واضح رہے کہ عبادت گاہ قانون ۱۹۹۱ء، آزاد ہندوستان میں عبادت گاہوں کے مذہبی کردار میں کسی قسم کی تبدیلی سے منع کرتا ہے۔ ۲۰۲۰ء میں، سپریم کورٹ میں اس قانون کو چیلنج کرتی ایک پٹیشن دائر کی گئی۔ ایک سال بعد عدالت نے اس معاملہ میں مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ اس کے بعد اس قانون کے خلاف کئی درخواستیں دائر کی گئیں۔ان درخواستوں پر مداخلت کرتے ہوئے، انجمن انتفاضہ مسجد کمیٹی، جو گیانواپی مسجد کی دیکھ بھال کرتی ہے، نے عدالت کو بتایا کہ وہ، اس قانون پر قانونی بحث میں کلیدی فریق ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل غزہ میں اپنے یرغمالوں کے ٹھکانے کے تعلق سے لاعلم: سرکاری میڈیا
اگست ۲۰۲۳ء میں، اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا، ڈی وائی چندرچڈ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے مسجد میں ایک سروے کرنے کی اجازت دی تاکہ مذہبی ڈھانچہ کے نیچے مندر کی موجودگی کا پتہ لگایا جاسکے۔ ۲۰۲۲ء میں اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے چندرچڈ نے کہا تھا کہ عبادت گاہ قانون، عبادت گاہ کے مذہبی کردار کا پتہ لگانے پر پابندی عائد نہیں کرتا۔ عدالت میں اس قانون کی بنیاد پر گیان واپی سروے کو چیلنج کرتی پٹیشن کی سماعت ہونی باقی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کسانوں کا دہلی چلو مارچ ، کسانوں نے شمبھو سرحد کے قریب لگائے گئے بریکیڈس ہٹائے
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کمیٹی نے کہا کہ گزشتہ کچھ سالوں میں، مختلف مساجد اور درگاہوں کے بارے میں پہلے ہی کئی دعوے کئے جا چکے ہیں کہ وہ قدیم منادر ہیں۔ لیکن یہ دعوے ’بیان بازی اور فرقہ وارانہ‘ تھے۔ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں داخل کی گئی درخواست میں اتر پردیش کے سنبھل کی ایک عدالت کے حکم کا بھی حوالہ دیا جس نے ۱۹؍ نومبر کو چندوسی قصبہ میں واقع شاہی جامع مسجد کے سروے کی اجازت دی تھی۔ ۲۴؍ نومبر کو مسجد کے سروے کے خلاف مظاہروں میں تشدد میں پانچ افراد مارے گئے تھے۔ کمیٹی نے کہا کہ ایک فریقی کارروائی نے بڑے پیمانے پر تشدد کو جنم دیا تھا۔ اس طرح کے تنازعات ملک کے کونے کونے میں سر اٹھا رہے ہیں جو بالآخر قانون کی حکمرانی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کر دیں گے۔ اپوزیشن لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ ۲۰۲۲ء میں چندرچوڑ کے اس تبصرہ نے ’پنڈورا باکس‘ کھول دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکمراں جماعت، بی جے پی، ڈھٹائی سے قانون کی خلاف ورزی کئے جا رہی ہے۔