بامبے ہائی کورٹ نے ریاست میں سلم ایریا ز، کلیئرنس اینڈ ری ڈیولپمنٹ ایکٹ ۱۹۷۱ء پرکئے گئے اعتراض اور داخل کردہ عرضداشت پر ازخود سماعت کا فیصلہ کیاہے ۔ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ اگر تمام کھلی جگہیں ڈیولپرس کو دے دی جائیں گی تو ہمارے ایتھلیٹ کہاں ٹریننگ حاصل کریں گے؟ کا سوال
بامبے ہائی کورٹ۔ تصویر: آئی این این
بامبے ہائی کورٹ نے ریاست میں سلم ایریاز، کلیئرنس اینڈ ری ڈیولپمنٹ ایکٹ ۱۹۷۱ء پرکئے گئے اعتراض اور داخل کردہ عرضداشت پرازخود سماعت کا فیصلہ کیاہے ۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت کی جانے والی تعمیرات پر انتہائی فکر مندی اورافسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے حکومت، شہری انتظامیہ اور دیگرمتعلقہ محکموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صحت مند، پر فضا ماحول دے رہیں اورکیا کھیل کود کیلئے درکار سہولتیں اور کشادہ میدان فراہم کیا جارہا ہے یا کیا جائے گا؟ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: کرافورڈ مارکیٹ ری ڈیولپمنٹ: مچھلی اور مٹن کیلئے نیا ونگ جلد کھلنے کا امکان
ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس گریش کلکرنی اور آدویت سیٹھنا نے آزاد میدان کے باہر جھوپڑے میں رہنے اور اپنے والد کے ہمراہ پانی پوری فروخت کرکے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے والے یشسوی جیسوا ل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ساری کھلی جگہیں پرائیویٹ ڈیولپرس کو دے دی جائیں گی تو کھیل کود میں دلچسپی رکھنے والے اور کھیل کود ہی میںاپنا مستقبل بنانے والے نوجوان کہاں جائیں گے۔ ہمیں اب سر جوڑ کر بیٹھنا اور سوچنا ہوگا کہ ہم ہماری آنے والی نسلوں کو صحت ، کھیل اور پرفضا ماحول کے نام پر کیا دے رہے ہیں ؟‘‘دو رکنی بنچ نے مزید کہا کہ ’’ ایک طرف ہم ۲۰۳۶ء میں ہونے والے اولمپک کی میز بانی کیلئے اپنا نام پیش کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے ایتھلیٹ میڈل جیتیں لیکن اولمپک کی میزبانی ملنے کے بعد ہمارے پاس ایسی جگہ موجود ہے جہاں ہم اولمپک کی میزبانی کرسکیں ساتھ ہی ہمارے ایتھلیٹ کو درکار اوپن اسپیس اور تمام سہولتیں فراہم کر سکیں ۔‘‘ کورٹ نے طنز کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’نوی ممبئی کے سڈکو میں ایک ورلڈ کلاس اسپورٹس اسٹیڈیم بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن افسوس اسے خارج کرتے ہوئے وہاں پرائیویٹ تعمیرات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اگر ہم ممبئی میں اولمپک کرانے کے خواہش مند ہیں تو بتاؤ جگہ کہاں ہے ۔‘‘کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی عام کھلاڑیوں کو عالمی درجہ کا بنانے کی سوچ اچھی ہے لیکن انہیں معیاری سہولتیں فراہم کرنے کی جانب کب اورکون توجہ دے گا ؟
یہ بھی پڑئے: بی ایم سی کے چند اسکولوں میں طلبہ کو رقم کی جگہ چھتریوں کی تقسیم کی شکایت
حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل بریندر سراف نے عدالت کو یقین دلایا کہ’’ ان معاملات پر حکومت اور اس کا متعلقہ ادارہ نہ صرف غور و فکر کرے گا بلکہ ایکٹ میں تبدیلیاں بھی کی جائیں گی۔‘‘اس پر کورٹ نےسبھی فریقوں کو ۳۱؍ جنوری تک اپنا مشورہ عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیا اور معاملے کی سماعت کو ۱۴؍ فروری تک ملتوی کردیا ہے ۔