• Fri, 08 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چھتیس گڑھ: عیسائیوں پر ہندو شدت پسندوں کا حملہ، عیسائیت ترک کرنے کا الٹی میٹم

Updated: June 25, 2024, 10:44 PM IST | Raepur

چھتیس گڑھ کے جگدل پور گائوں میں بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے گاؤں کے عیسائی خاندان پر حملہ کر دیا، ان کے کھیت چھین لئے، انہیں گاؤں سے بھاگنے پر مجبور کیا اور واپسی کیلئے عیسائی مذہب ترک کرنے کی شرط رکھی۔ خاندان والوں کا الزام ہے کہ پولیس بھی اس میں شریک ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

۱۲؍جون کو، چھتیس گڑھ کے جگدل پور میں عیسائی خاندانوں پر مبینہ طور پر ہندوتوا کے ہجوم نے حملہ کیا اور ۱۰؍دنوں کے اندر اپنے مذہب کو ترک کرنے کا الٹی میٹم دیا۔اس حملے میں کم از کم دو متاثرین بے ہوش ہو گئے تھے جبکہ تین کو بدانجی پولیس سٹیشن کے تحت بڈے پارودا گاؤں میں حملے کے بعداسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے مکتوب کو بتایا کہ زخمیوں میں سے ایک کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے جس سے تشدد کی شدت کااندازہ ہوتا ہے۔ یہ گاؤں۲۰۲۳ء سے ان مذہبی جھڑپوں کا ایک مرکز رہا ہے، جہاں عیسائی اقلیتیں ان ہندو انتہا پسندوں کے حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنی ہیں۔۲۰۲۳ءسے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے مشاہدہ کیا کہ تمام حملوں میں مقامی پولیس نے مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں خاندان کو اپنے گاؤں سے بھاگنا پڑا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نئی دہلی: ہندوتوا لیڈر کی شکایت پر مسجد کو منہدم کیا گیا، مقامی لیڈران کا احتجاج

وکیل نے، جو اپنا نام ظاہرنہیں کرنا چاہتا ہے، مکتوب کو بتایا’’ان خاندانوں کو اب گاؤں سے نکال دیا گیا ہے اور انہیں مقامی حکام کی موجودگی میں اور گاؤں کے سرپنچ کے دستخطوں سے ایک بیان پر دستخط کرنے کیلئے مجبور کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ واپس آنا چاہتے ہیں تو وہ دس دن کے اندر مذہب تبدیل کر لیں گے۔ اگر وہ تعمیل نہیں کرتے تو انہیں مار دیا جائے گا،۔‘‘اس واقعے کے بارے میں معلومات کا اشتراک کرتے ہوئے، یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) نے کہا کہ صرف گزشتہ ہفتے میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم ۲۳؍واقعات درجکیے گئے ہیں۔ گروپ کی طرف سے پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۲۴ءکے پہلے تین مہینوں میں عیسائیوں کے خلاف تقریباً ۲۰۰؍نفرت انگیز جرائم درجہوئے ہیں۔ہندوتوا گروپ نے املاک پر مزید حملہ کیا، کھیت کی دیواریں گرا دیں اور فصلوں کو تباہ کر دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں روپے کا بھاری مالی نقصان ہوا۔ متاثرین پر جسمانی حملہ کرنے کے بعد، حملہ آوروں نے خاندانوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں جاری کیں اور ان سے کہا کہ وہ اپنے مذہب کو تبدیل کریں یا مزید بربریت کا سامنا کریں۔
گائوں کے شوبا، چیتن اور ساوتری کو ان کی زمینوں پر کاشت کرنے کیلئے عیسائیت ترک کرنے پر مجبور کیاگیا۔ یہ مسئلہ ۲۰۲۳ءسے برقرار ہے، لیکن اس ماہ کےاوائل میں یہ وحشیانہ تشدد میںتبدیل ہو  گیا۔ انہیں اپنی زمینوں پر کاشت کرنے سے روک دیا گیا  اور ان کی کاشت سے حاصل ہونے والی رقم کوحکام کے درمیان تقسیم کر دیا گیا اور اس کا صرف چھٹا حصہ انہیں دیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے: سعودی عرب: خانۂ کعبہ کے نئے کلید بردار کا اعلان، عبدالوہاب الشیبہ ذمہ داری نبھائیں گے

۱۲؍مکتوب کے ذریعے کی گئی شکایت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ۱۲؍جون کو جب گاؤں والے اپنی زمینوں پر کاشت کرنے گئے تو بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے وابستہ ایک گروپ نےان سے کہا کہ وہ اس وقت تک کام نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ اپنے مذہب کو ترک نہیں کرتے کیونکہ زمینیں گاؤں کے `دیوتاؤں کی ہیں۔ بعد ازاں، صبح ۹؍بجے کے قریب خاندانوں کو ان کے گھروں سے باہر گھسیٹا گیا، بے دردی سے مارا پیٹا گیا، اور تقریباً ۳؍بجے تک پنچایت بھون میں نظر بند رکھا گیا۔اس میں چند نابالغ لڑکیاں بھی شامل تھیں جنہیں پولیس کی مدد سے حراست میں لیا گیا تھا، ۔کچھ مہینے پہلے، ان گروہوں نے عیسائی خاندانوں کو مذہب تبدیل کرنے  پر مجبور کرنےکیلئے مکئی کے کھیتوں کو بھی جلا دیا۔کافی عرصے سے گاؤں کی مسیحی برادری کی جانب سے پولیس کی مناسب تعیناتی نہ ہونے کی شکایات درج کرائی جا رہی تھیں۔ مدد کیلئےبار بار پکارنے کے باوجود، قانون نافذ کرنے والے بڑے پیمانے پر غائب رہے، جس نے اس  برادری کو اس طرح کے حملوں کا آسان ہدف بنا دیا۔ اس تازہ ترین واقعے نے عیسائی خاندانوں میں خوف پیدا کر دیا ہے، جس سے وہ حفاظت کی خاطر گاؤں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک ایڈوکیسی گروپ کی طرف سے دسمبر ۲۰۲۳ءمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جن کی تعداد  ۲۰۲۱ءمیں ۵۰۵؍اور ۲۰۲۲ءمیں ۵۹۹؍واقعات سے ۲۰۲۳ءمیں ۶۸۷؍تک پہنچ گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK