Updated: January 04, 2025, 7:40 PM IST
| Ajmer
ہندوسینا نے اجمیر کی ایک عدالت میں عرضی داخل کی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے یہ عمل عدالت کو ’’سیاسی جواز‘‘ فراہم کرے گا جس سے یہ معاملہ خارج کیا جاسکتا ہے۔ خیال رہے کہ ہندوسینا کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر درگاہ، شیو مندر کے اوپر بنائی گئی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اجمیر درگاہ پر بھیجی جانے والی چادر کے ساتھ۔ تصویر: ایکس
لائیو لا کے مطابق جمعہ کو اجمیر کی ایک عدالت میں وزیر اعظم نریندر مودی کو اجمیر شریف درگاہ پر چادر چڑھانے سے عارضی طور پر روکنے کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ یہ ایک متنازع ڈھانچہ ہے اور وزیراعظم کا یہ عمل عدالت کو ’’سیاسی جواز‘‘ فراہم کرے گا۔ مرکزی حکومت کے زیر غور متنازع ڈھانچے کو چادر بھیج کر کسی بھی قسم کے سیاسی جواز فراہم کرنے سے نہ صرف عدالتی عمل میں رکاوٹ آئے گی بلکہ قانونی آزادی کو بھی مجروح کیا جائے گا، جس کی وجہ سے پورا مقدمہ ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ درخواست ہندو سینا کے سربراہ وشنو گپتا نے اپنے جاری مقدمے کے حصے کے طور پر دائر کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ۱۳؍ ویں صدی کے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتیؒ کا مزار شیو مندر کے اوپر بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برازیل: عدالت کا تاریخی اقدام، اسرائیلی فوجیوں کے خلاف تفتیش کا حکم
گپتا نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ اجمیر شریف درگاہ کو بھگوان شری سنکٹموچن مہادیو ویراجمان مندر قرار دیا جائے۔ عرضی میں درگاہ کمیٹی کو احاطے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے اس جگہ کا سروے کرنے کا کہا گیا ہے۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی دروازے پر چھت کا ڈیزائن ہندو ڈھانچے سے ملتا جلتا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جگہ اصل میں ایک مندر تھی۔ یاد رہے کہ جمعرات کو وزیر اعظم مودی نے مرکزی وزیر برائے اقلیتی اور پارلیمانی امور کرن رجیجو کو مزار پر چڑھائی جانے والی چادر پیش کی تھی۔ ۲۰۱۴ء سے مودی سالانہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خواجہ چشتیؒ کے عرس کے موقع پر چادر بھیجتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ہمیں یاد رکھئے گا‘‘، فلسطینی سفیر یواین سلامتی کاؤنسل میں روپڑے
دسمبر ۲۰۲۴ء میں سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے مذہبی کردار سے متعلق زیر التوا مقدمات میں ٹرائل کورٹس کو سروے کی ہدایات سمیت احکامات جاری کرنے سے روک دیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ملک بھر کی کسی بھی عدالت میں اگلے احکامات تک کوئی نیا مقدمہ اس وقت درج نہیں کیا جا سکتا ہے جب تک وہ ۱۹۹۱ء کے عبادت گاہوں کے خصوصی دفعات کے ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ قانون کسی عبادت گاہ کے مذہبی کردار میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت ملک بھر کی عدالتوں میں ۱۰؍ مساجد اور درگاہوں سے متعلق کم از کم ۱۸؍ مقدمے زیر التوا ہیں، جن میں وارانسی کی گیانواپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور جونپور کی اٹالہ مسجد شامل ہیں۔ ان مقدمات میں ہندو فریقین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ڈھانچے قدیم ہندو مندروں کو منہدم کرنے کے بعد بنائے گئے تھے۔