فلسطین کی نمائندگی کرنے والے پال رائشلر نے غزہ کو ایک "قتل گاہ" قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل غزہ پٹی میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو ایک "سوچا سمجھا" اور قابل واپسی سیاسی فیصلہ ہے۔
EPAPER
Updated: April 28, 2025, 8:17 PM IST | Inquilab News Network | The Hague
فلسطین کی نمائندگی کرنے والے پال رائشلر نے غزہ کو ایک "قتل گاہ" قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل غزہ پٹی میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو ایک "سوچا سمجھا" اور قابل واپسی سیاسی فیصلہ ہے۔
دی ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں اور قانونی ذمہ داریوں پر عوامی سماعتوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ پیر کو پہلی سماعت کے دوران فلسطین کے ایلچی نے اسرائیل پر غزہ میں "نسل کشی" کا الزام لگایا۔ نیدرلینڈز میں واقع بین الاقوامی تنظیموں کیلئے فلسطینی نمائندے عمار حجازی نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگی کارروائیوں کے دوران جان بوجھ کر امداد رسانی کا کام کرنے والی تنظیموں کو نشانہ بناتے ہوئے ۴۰۸ سے زائد اقوام متحدہ کے کارکنوں کو قتل کیا ہے اور علاقے کی سخت ناکہ بندی کرکے ۲۰ لاکھ سے زائد شہریوں کو بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ عدالت میں ایک زبردست خطاب میں، حجازی نے اسرائیل پر غزہ میں اقوام متحدہ کے کارکنوں، نیم طبی اہلکار اور امدادی تنظیموں پر منظم حملوں کا الزام لگایا اور اسے نسل کشی کی وسیع کوشش کا حصہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: جاپان: اسرائیلی سیاح کو ہوٹل میں داخلے کیلئے’’حلف نامہ ‘‘ پر دستخط کرنے کہا گیا
فلسطین کے اسرائیل پر الزامات
حجازی نے آئی سی جے کو بتایا کہ اسرائیلی فورسیز نے اقوام متحدہ کی اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) کے عملہ کے تقریباً ۳۰۰ اہلکار اور درجنوں نیم طبی اہلکاروں کو قتل کر چکی ہے۔ یہ حملے "غیر حادثاتی اور جان بوجھ کر کئے گئے" تھے۔ انہوں نے گھات لگا کر انسانی کارکنوں کو قتل کرنے اور اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کے واقعات پر روشنی ڈالی اور اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری ناکہ بندی کو "مکمل محاصرے" میں تبدیل کرنے کا ذکر کیا۔ حجازی نے کہا، "اسرائیل فلسطینیوں کو بھوکوں مار رہا ہے، قتل کر رہا ہے اور بے گھر کر رہا ہے جبکہ امدادی تنظیموں کو بھی روک رہا ہے۔" انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے شہری خوراک، پانی اور پناہ کی تباہ کن حد تک کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل برائے قانونی امور ایلنور ہیمارسکجولڈ نے ان خدشات کی تائید کی اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچانے کی سہولت فراہم کرنی چاہئے اور اقوام متحدہ کے عملہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنا چاہئے۔ انہوں نے اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں اقوام متحدہ کے ۲۹۵ اہلکاروں کی ہلاکت کو نوٹ کیا اور انروا کے خلاف اسرائیل کی قانون سازی کو خودمختاری کی غیر قانونی توسیع قرار دیا۔ ہیمارسکجولڈ نے زور دیا، "بین الاقوامی قانون کا احترام کرنا ہی امن کا واحد راستہ ہے۔"
یہ بھی پڑھئے: غزہ: خوارک کے یو این ادارے کے ذخائر ختم، قحط پھیلنے کا خدشہ
غزہ، قتل گاہ بن چکا ہے
فلسطین کی نمائندگی کرنے والے پال رائشلر نے غزہ کو ایک "قتل گاہ" قرار دیا جہاں شہری ایک "لامتناہی موت کے چکر" میں پھنسے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل پر چوتھے جنیوا معاہدے اور روایتی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ رائشلر نے زور دیا کہ غزہ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو ایک "سوچا سمجھا" اور قابل واپسی سیاسی فیصلہ ہے۔ رائشلر نے بحران سے نمٹنے کیلئے غیر محدود انسانی رسائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مغربی کنارہ کے "ایک اور غزہ" بننے کا خطرہ ہے۔
فلسطین کی نمائندگی کرنے والے وکیل بلین نی غرالائی نے غزہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی نقصان کو اجاگر کیا اور غزہ کو "سب سے زیادہ معذور بچوں والی آبادی" اور "جدید تاریخ میں یتیموں کا سب سے بڑا بحران" والا مقام قرار دیا۔ انہوں نے اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی بے مثال اور متعدد خلاف ورزیوں کا کا الزام لگایا جن میں اقوام متحدہ کے اسکولوں میں زبردستی داخلہ، اقوام متحدہ کے احاطوں کی پرتشدد بندش اور امدادی قافلوں پر حملے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات ۱۹۷۳ء کے کنونشن آن دی پریوینشن آف کرائمز اگینسٹ انٹرنیشنلی پروٹیکٹڈ پرسنز جیسے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
غزہ میں انروا کا کردار
فلسطین کے ایک اور نمائندے عردی امسیس نے علاقہ میں انروا کے اہم کردار پر زور دیا اور خبردار کیا کہ اس کا خاتمہ اسرائیل کے مبینہ نسل کشی کے منصوبوں کا مرکزی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا، "اسرائیل قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ انروا کے کاموں میں سہولت پیدا کرے، نہ کہ اسے روکے۔" امسیس نے نوٹ کیا کہ یہ ایجنسی لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرنے کی بے مثال صلاحیت رکھتی ہے۔ انروا کو غزہ کی بقاء کی "آخری امید" قرار دیا گیا لیکن اقوام متحدہ کے احاطوں اور عملہ پر اسرائیلی حملوں نے چوتھے جنیوا معاہدے سمیت بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزیوں کے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فضائی حملے کے بعد غزہ کا الدرہ چلڈرن اسپتال بند
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی درخواست پر شروع ہونے والی یہ سماعتیں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک غزہ میں ۵۲ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت کے تناظر میں اسرائیل کے جنگی اقدامات کو کٹہرے میں کھڑا کرتی ہیں۔ ۴۰ ممالک اور ۴ بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں کی موجودگی میں جاری سماعتوں میں عدالت انسانی امداد اور فلسطینی خودمختاری کے حوالے سے اسرائیل کی بین الاقوامی قانون کی تعمیل کی صورتحال کا جائزہ لیں گی۔ دی ہیگ کے پیس پیلس میں ہونے والی آئی سی جے کی سماعتوں میں ترکی، جنوبی افریقہ، چین اور قطر سمیت کئی ممالک اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں زبانی شرکت کر رہی ہیں۔ اسرائیل نے تحریری بیان جمع کرایا ہے لیکن زبانی شرکت سے انکار کر دیا۔ یہ کارروائی غزہ میں اسرائیل کے فوجی اقدامات پر مرکوز ایک علیحدہ نسل کشی کے مقدمہ سے الگ ہے۔ یہ سماعتیں اس وقت ہو رہی ہے جب اقوام متحدہ کے حکام غزہ میں "تباہ کن انسانی نتائج" کی بات کر رہے ہیں جہاں ۲ مارچ ۲۰۲۵ء سے کوئی انسانی امداد اور خوراک داخل نہیں ہوئی ہے۔