ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اب پارک اور بیوٹی پارلر تک پہنچ چکی ہے، بی جے پی کے حمایت یافتہ متعدد شدت پسند لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چلا رکھی ہے، جس کیلئے فرضی خبروں اور جعلی پروپیگنڈا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
EPAPER
Updated: April 15, 2025, 11:40 PM IST | Lukhnow
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اب پارک اور بیوٹی پارلر تک پہنچ چکی ہے، بی جے پی کے حمایت یافتہ متعدد شدت پسند لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک مہم چلا رکھی ہے، جس کیلئے فرضی خبروں اور جعلی پروپیگنڈا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
بی جے پی کی حمایت سے جاری مسلمانوں کے خلاف نفرت نے ہندوستان میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔تازہ معاملہ اتر پردیش کا ہے جہاں اب عوامی پارک اور بیوٹی پارلر کو نفرت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کسی زمانےمیں صرف آن لائن ہونے والی یہ نفرت اب سماج میں کھلےعام پھیلائی جا رہی ہے۔معاملہ بریلی کا ہے، جہاں عوامی پارک میں رام نومی کا جشن منایا جارہا تھا،اس وقت مسلم نوجوانوں کوہندو ؤں کی ایک بھیڑ نے یہ کہہ کر پارک سے باہر نکال دیا کہ وہ ہندو عورتوں کو ڈسٹرب کر رہے تھے۔واقعہ کے وائرل ویڈیو میں بھیڑ کو نعرے لگاتے، اور یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ یہاں ہندو عورتیں ہیں، یہ پارک مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔یہ یہاں لو جہاد کیلئے آئے ہیں۔نکلو یہاں سے۔‘‘ تاہم اس ویڈیوپر آن لائن تو شدید تنقید ہوئی، لیکن اصل میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔بزرگ مسلم رہنما مولانا ارشد مدنی نے اس واقع پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ محض نفرت انگیز تقریر کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ نفرت انگیز عمل ہے، محض مسلم ہونے کے سبب نوجوانوں کو پارک سے باہر دھکیل دیا گیا، قانون کہاں ہے۔‘‘
اسی طرح کے ایک اور واقع میں خود ساختہ ہندو لیڈر پنڈت دنیش شرما جو کرشنا جنم بھومی سنگھرش سمیتی کا صدر ہے، ایک خط لکھ کر یوگی آدتیہ ناتھ سے مطالبہ کیا ہے کہ متھرا اور ورنداون کے تمام خواتین بیوٹی پارلر میں کام کر رہے مسلم ملازمین پر پابندی عائد کی جائے۔ شرما نے مزید اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مسلم ملازم بال تراشنے کے بہانے دھیرے دھیرے خواتین چھوتے ہیں، انہیں لو جہاد میں پھنسا کر ان سے شادی کرتے ہیں، اور پھر دوسرے شہر لے جاکر بیچ دیتے ہیں۔‘‘ شرما کی اشتعال انگیزی یہیں نہیں رکی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ان مسلم ملازمین کو مسلم تنظیموں کی جانب سے مالی امداد دی جاتی ہے۔شرما نے مسلم ملازم رکھنے والے بیوٹی پارلر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ۔
نفرت کی اس آگ کو پھیلانے کیلئے مزید شدت پسند اپنا کردار ادا کرنے سامنے آئے۔ ان میں سے ایک خود کو رام کی داسنی کہنے والی یوگیشوری دیوی بھی ہے۔ نفرتی بیان کی تائید کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اب تک مسلم لڑکے اسکولوں کے اطراف چکر لگاتے تھے، اب وہ بیوٹی پارلر میں بھی گھس گئے ہیں۔ ہندو لڑکیوں کو ان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔اس نفرت کی آگ کو مزید بھڑکانے کیلئے ایک اور خود ساختہ لیڈر رام داس مہاراج گھی لے کر آگیا، اس نے دعویٰ کیا کہ’’ مسلم لڑکے گوشت کھاتے ہیں اور کالا جادو کرتے ہیں۔ اگر میک اپ ضروری ہو تو صرف سناتنی ہندو سے ہی کرائیں۔یہ پارلر نہیں دہشت گردی کے اڈے ہیں۔‘‘
اس کے بیان کی سول سوسائٹی، اور خواتین تنظیموں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ۔ لیکن اس قسم کی نفرتوں کے درخت اب پھل دینے لگے ہیں۔ ذاکر حسین نامی ایک ہیر اسٹائلسٹ کا کہنا ہے کہ اس کے مالک نے اس سے حالات معمول پر آنے تک کام پر نہ آنے کو کہا ہے۔جبکہ متھرا اور بریلی میں رہنے والے مسلم ملازموں نے کہا کہ ہم پہلے ہی غیر اعلان شدہ بائیکاٹ کا شکار ہیں۔ حالانکہ اس قسم کے بیانات کی مسلم سرکردہ شخصیات کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے، تاہم حکمراں بی جے پی کی جانب سےاس نفرتی مہم کو خاموش تائید حاصل ہے۔