Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

امریکہ سے جلاوطن ہندوستانی اسکالر کا بیان: میں مظاہروں میں شامل نہیں ہوئی اور نہ خود کو جلاوطن کیا

Updated: March 29, 2025, 10:13 PM IST | Inquilab News Network | Washington / New Delhi

سری نواسن نے بتایا کہ وہ ۲۲ اپریل ۲۰۲۴ء تک امریکہ میں موجود نہیں تھیں کیونکہ وہ ہندوستان میں فیلڈ ورک میں مصروف تھیں۔ وہ ۲۵ یا ۲۶ اپریل کو امریکہ پہنچی۔ اس طرح وہ مظاہروں کے دوران بیشتر عرصہ تک کیمپس پر موجود نہیں تھی۔

Ranjani Srinivasan. Photo: INN
رنجنی سری نواسن۔ تصویر: آئی این این

ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں فلسطین حامی مظاہروں میں شامل طلبہ کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے جس کے چلتے گزشتہ چند ہفتوں میں متعدد طلبہ اور افراد کو حراست میں لیا گیا یا ملک بدر کردیا گیا۔ ہندوستانی طالبہ رنجنی سری نواسن کو بھی انتظامیہ کی جانب سے "دہشت گردی کا حامی" قرار دے کر ان کا ویزا منسوخ کردیا گیا جس کے بعد انہوں نے ملک چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ تاہم، کولمبیا یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی اسکالر کا کہنا ہے کہ وہ کیمپس میں ہوئے فلسطین حامی مظاہروں میں کبھی شامل نہیں ہوئیں اور اس عرصے کے بیشتر حصے کےدوران وہ ملک میں موجود ہی نہیں تھیں۔ سری نواسن نے جمعہ کو دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ کیمپس میں ہونے والے (فلسطین حامی) مظاہروں سے ہمدردی رکھتی ہیں لیکن انہوں نے ان چیزوں کو آن لائن فالو کیا، وہ جسمانی طور پر ان مظاہروں میں شریک نہیں ہوئیں۔ سری نواسن نے بتایا کہ وہ ۲۲ اپریل ۲۰۲۴ء تک امریکہ میں موجود نہیں تھیں کیونکہ وہ ہندوستان میں فیلڈ ورک میں مصروف تھیں۔ وہ ۲۵ یا ۲۶ اپریل کو امریکہ پہنچیں۔ اس طرح وہ مظاہروں کے دوران بیشتر عرصہ تک کیمپس پر موجود نہیں تھیں۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ڈونالڈ ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس کی دعوت افطار میں مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا

سری نواسن نے ۳۰ اپریل کو کولمبیا یونیورسٹی کے قریب ایک پارک میں ڈپارٹمنٹ پکنک میں شرکت کا ذکر کیا، اسی دن پولیس نے انہیں`مظاہرہ کرنے` کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔ ۳۷ سالہ اسکالر نے بتایا کہ ان کی سرگرمی صرف پٹیشنز پر دستخط کرنے یا سوشل میڈیا پوسٹس کو لائک کرنے تک محدود تھیں جو "تعلیمی دباؤ کے خلاف تھیں" اور مشرق وسطیٰ میں تشدد کو روکنے کی اپیل کرتی تھیں۔ سری نواسن نے مزید بتایا، "میں پکنک کیلئے کچھ کیک اور کوکیز لے کر گئی تھی اور وہاں سے واپس آرہی تھی تو میں نے اور میرے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ پورے علاقہ کی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ وہاں نیویارک پولیس کے تقریباً ۲۰۰ اہلکار موجود تھے۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹے تک وہاں چکر لگایا اور آخر میں میں نے اپنے رہائشی مقام پر جانے کی کوشش کی جو یونیورسٹی سے ملحق ہے۔ لیکن پولیس نے ہجوم میں مجھے پکڑ لیا حالانکہ میں فعال طور پر مظاہرے کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔"

یہ بھی پڑھئے: امریکہ نے۳۰۰؍ سے زائد طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے:مارکو روبیو نے تصدیق کی

جب سری نواسن مارچ کے اوائل میں امریکہ سے باہر چلی گئیں، اسی دوران ان کا ویزا اچانک منسوخ کر دیا گیا اور امیگریشن اہلکار ان کے یونیورسٹی رہائش گاہ پر تلاشی لینے آئے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بتایا کہ سری نواسن کا ویزا "تشدد اور دہشت گردی کی حمایت کرنے" کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔ تاہم، انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی تفصیلات یا ثبوت پیش نہیں کئے۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی کی ویب سائٹ پر موجود ایک پریس ریلیز میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سری نواسن نے "سی بی پی ہوم ایپ کا استعمال کرتے ہوئے خود کو جلاوطن کیا" اور الزام لگایا گیا کہ کولمبیا کی یہ طالبہ حماس کی حمایت میں سرگرم تھی۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں ٹرمپ کے کریک ڈاؤن کے درمیان غیر قانونی تارکینِ وطن کنیڈا فرار ہورہے ہیں: رپورٹ

تاہم، سری نواسن نے دی انڈین ایکسپریس کو مزید بتایا کہ انہوں نے صرف کنیڈا جانے کیلئے امریکہ چھوڑا تھا کیونکہ ان کا ویزا "غیر قانونی طور پر منسوخ کر دیا گیا تھا"۔ کولمبیا کی جانب سے ان کا داخلہ منسوخ ہونے کا مطلب یہ بھی تھا کہ اب انہیں رہائش تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا، "میں نے اس اصول کی پابندی کی اور ویزا منسوخ ہونے کے بعد ۱۵ دنوں کے اندر ملک چھوڑ دیا۔ لیکن امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کو معلوم نہیں تھا کہ میں ملک چھوڑ چکی ہوں اور وہ ۱۳ مارچ کو مجھے حراست میں لینے کیلئے وارنٹ لے آئے۔ میرے وکلاء نے آئی سی ای کو بتایا کہ میں ملک چھوڑ چکی ہوں اور انہوں نے ثبوت مانگا۔ جب ہم ملک چھوڑنے کے ثبوت جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو یہ پوسٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ میں نے `خود کو جلاوطن کیا`۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کوئی خود کو جلاوطن بھی کر سکتا ہے۔ میں نے تو عام طریقے سے ملک چھوڑا تھا۔"

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK