Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنگ کے بعد بھی اسرائیل کا غزہ میں موجود رہنے کا اعلان

Updated: April 17, 2025, 11:37 AM IST | Agency | Tel Aviv/Gaza

فلسطینیوں کیلئے زمین تنگ کردینے کی تیاری، ’’سیکوریٹی زون‘‘ میں صہیونی فوجی موجود رہیں گے، حماس سے شرطیں مان لینے کا مطالبہ، ورنہ مزید علاقوں پر قبضہ کی دھمکی۔

A man injured in an Israeli attack in Gaza is carried away in an ambulance. Photo: INN
غزہ میں اسرائیلی حملے میں زخمی ہونےوالے ایک شخص کو ایمبولنس میں لے جایاجارہاہے۔ تصویر: آئی این این

اسرائیل نے  غزہ میں قتل عام کےبیچ بدھ کو اعلان کیا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے باوجود اس کے فوجی غزہ میں  بنائے گئے ’’سیکوریٹی زون‘‘ میں  موجودرہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نےحماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ  جنگ بندی کیلئے تل ابیب کی جانب سے بھیجی گئی تجاویز کو قبول کرے ورنہ صہیونی فوجیں  غزہ کے مزید علاقوں پر قبضہ کرلیںگی۔ واضح رہے کہ اسرائیل ’’بفر زون‘‘ یا ’’سیکوریٹی زون‘‘ کے نام پر غزہ کے ۲۰؍ فیصد حصے پر قابض ہوچکاہے۔ 
غزہ میں فلسطینیوں کیلئے زمین تنگ
 گزشتہ ماہ اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اسرائیلی افواج نے غزہ میں ایک وسیع ’’سیکورٹی زون‘‘ تشکیل دیا ہے اور۲۰؍ لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو غزہ کے جنوب اور ساحلی پٹی کی جانب مزید چھوٹے علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق  بدھ۱۶؍ اپریل کو فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیان میں کاٹز نے کہا ہے کہ ’’ماضی کے برعکس، اسرائیلی فوجیوں  ان علاقوں کو خالی نہیں کریں  گی جنہیں کلیئر کر کے قبضے میں لے لیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’آئی ڈی ایف(اسرائیلی فوجی) غزہ میں کسی بھی عارضی یا مستقل صورتحال میں دشمن اور معاشرہ کے درمیان بطور بفر سیکوریٹی زون میں رہے گی جس طرح  لبنان اور شام میں ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے:ناگپور فساد :انہدامی کارروائی پر غیر مشروط معافی

جنوبی غزہ کے ۲۰؍ فیصد حصے پر قبضہ
 خبر رساں ادارے’’رائٹرز‘‘کے مطابق غزہ کے صرف جنوبی حصے میں  اسرائیلی افواج نے تقریباً۲۰؍فیصد زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور سرحدی شہر رفح کا کنٹرول بھی  سنبھال لیا ہے نیز غزہ کے مشرقی کنارے سے بحیرہ روم تک رفح اور خان یونس شہر کے درمیان بحیرہ روم تک پھیلے ہوئے `موراگ کوریڈور‘ میں شامل کر دیا ہے۔
 اسرائیلی قبضے میں پہلے ہی وسطی نیتساریم کے علاقے میں ایک وسیع راہداری قائم کی جا چکی ہے اور سرحد کے ارد گرد سیکڑوں میٹر اندر تک زمین کو شامل کر لیا گیا ہے۔ اس میں شمال میں غزہ شہر کے مشرق میں شجاعیہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نے حماس کےسیکڑوں جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے، جن میں اس فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے کئی سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں لیکن اس کارروائی نےاقوام متحدہ اور یورپی ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
مہینے بھر میں ۴؍ لاکھ فلسطینی بے گھر
 اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ دفتر او سی ایچ اے کے مطابق دو ماہ کے نسبتاً پرسکون وقفے کے بعد۱۸؍ مارچ کو اسرائیلی ملٹری کارروائی دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ۴؍ لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور اسرائیلی فضائی حملوں اور بمباری میں مزید کم از کم ایک  ہزار ۶۳۰؍ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔  غزہ میں جاں بحق ہونےوالوں کی مجموعی تعداد ۵۱؍ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ایک لاکھ ۱۶؍ ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی!

تل ابیب امداد دخل نہ ہونے دینے پر اٹل
 اس حقیقت کے باوجود کہ غزہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بھکمری کی کیفیت شدید تر ہوتی جارہی ہے،  اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کو داخل ہونے سے روکنے کا عمل جاری رکھے گا۔ کاٹز نے کہا ہے کہ ’’اسرائیل کی پالیسی واضح ہے،  غزہ میں کوئی انسانی بنیادوں پر  امداد داخل نہیں ہوگی  اور اس امداد کو روکنا ایک اہم دباؤ ہے تاکہ حماس کی طرف سے اسے آبادی کے ساتھ ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔‘‘
غزہ میں شدید انسانی بحران: اقوام متحدہ
 اقوام متحدہ کی طرف سے چند روز قبل ہی کہا گیا تھا کہ اکتوبر۲۰۲۳ء میں غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ کو شدید ترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ۲؍ مارچ سے دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد سے  امداد کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس بیچ قاہرہ میں جنگ بندی کی بات چیت چل رہی ہے۔ حماس نے جنگ بندی کے لیے اسرائیل کی نئی تجویز پر ابھی  اپنا جواب جمع نہیں کرایا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK