• Thu, 19 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آرایس ایس سے وابستہ پروفیسر مظہر آصف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نئے وائس چانسلرمقرر

Updated: October 25, 2024, 9:26 PM IST | New Delhi

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نئےچانسلر کے طور پر آر ایس ایس کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے سابقہ رکن پروفیسر مظہر آصف کی تقرری پر تنقید کی جا رہی ہے۔سی اے اے اور این آر سی حامی پروفیسر کی تقرری کو بی جے پی کے ایجنڈے کے ایک حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

New Vice Chancellor of Jamia Millia Islamia Professor Mazhar Asif. Image: X
جامیہ ملیہ اسلامیہ کے نئے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف۔ تصویر: ایکس

جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے زباندانی شعبے سے وابستہ پروفیسر مظہر آصف کو ہندوستان کی صدر مرمو کے ذریعے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا ہے۔ یہ عہدہ انہیں پانچ سال کیلئے یا ان کی عمر ۷۰؍ سال پہنچنے تک تفویض کیا گیا ہے۔ان کی تقرری نے ایک نئے تنازع کو جنم دے دیا ہے۔جس کی وجہ ان کی آر ایس ایس سے قربت ہے۔جامیہ سے وابستہ افراد مظہر آصف کی جامعہ کے کردار کو برقرار رکھنے کی اہلیت پر ہی سوال کھڑے کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: عمر خالد کو ناحق جیل میں رکھنے کی عالمی میڈیا میں گونج

پروفیسر مظہر آصف آر ایس ایس کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے رکن رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے ان کا نظریہ بھی جامعہ کے طلبہ کے نظریات سے متصادم ہے۔ جہاں ایک جانب سی اے اے کی مخالفت میں جامعہ نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کی وہیں دوسری جانب مظہر آصف نے اس کی حمایت میں منعقد کئے گئے بی جے پی کے پر گراموں میں شرکت کی۔ کئی طلبہ ان کی تقرری کو بے جے پی کے ایک بڑے ایجنڈے کے ایک حصے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
لبیب بشیر جو پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ان کا کہنا ہے کہ’’ جبکہ ایک آر ایس ایس کی حمایت یافتہجامعہ کاچانسلر مقرر ہوا ہے، جامعہ کے طلبہ کیلئے حالات مزید دشوار ہو جائیں گے۔ ہم طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بغیر خوفزدہ ہوئے اختلاف رائے کو جاری رکھیں، جس طرح ہم سنگھ پریوار کے ہمدرد ماضی کے وائس چانسلروں کے خلاف ثابت قدم رہے۔‘‘سماجی کارکن آصف مجتبیٰ نے بھی مظہر آصف کی تقرری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’’ جس طرح جے ایم آئی اور اے ایم یو جیسے کیمپس تیزی سے ہندوتوا کے ایجنڈے کی افزائش گاہ بن رہے ہیں اس پر ایک بڑی بحث کی ضرورت ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: عبوری حکومت نے عوامی لیگ کے اسٹوڈنس ونگ پر پابندی عائد کی

۱۹۲۹ءمیں قائم ہونے والی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ہندوستان کے سماجی اورسیاسی منظر نامے میں ایک اہم میراث رکھتی ہے، ابتدائی طور پر علی گڑھ میں ۱۹۳۵ءمیں نئی ​​دہلی منتقل ہونے سے پہلے قائم کی گئی تھی۔جامعہ نے ۱۹۶۲ء میں ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا اور ۱۹۸۸ءمیں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعے مرکزی یونیورسٹی بن گئی۔
پروفیسر آصف تصوف اور قرون وسطی کی ہندوستانی تاریخ کے ماہر ہیں۔ انہوں نے جے این یو اور مولانا ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسلوں میں خدمات انجام دی ہیں، اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ میں با اثر کردار ادا کیے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ۲۰؍سے زیادہ تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں اور فارسی، انگریزی اور آسامی میں نو کتابیں تصنیف کی ہیں۔اس کے علاوہ کئی تنازعات بھی ان سے وابستہ رہے۔۲۰۱۷ء میں جے این یو کے ایک شعبے میں ان کی تقرری کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔۲۰۱۸ء میں جے این یو کے اسکول آف آرٹس اور جمالیات کے قائم مقام ڈین کے طور پر مقرر ہوئے بعد میں انہیں قواعد کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی حکم کے ذریعے برطرف کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تین سال قبل جنوری  ۲۰۲۰ء میں جے این یوکیمپس کے ہونے والے تصادم میں تشدد کو بھڑکانے میں بھی ان کا نام سامنے آیا تھا جس میں ۳۰؍ سے زائد طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK