خط میں تمام جمہوری اور ترقی پسند تنظیموں، صحافیوں، وکلاء، سماجی کارکنوں، اور انسانی حقوق کے محافظوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سنگھ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور ان کی غیر قانونی حراست سے فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کریں۔
EPAPER
Updated: April 09, 2025, 8:10 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
خط میں تمام جمہوری اور ترقی پسند تنظیموں، صحافیوں، وکلاء، سماجی کارکنوں، اور انسانی حقوق کے محافظوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سنگھ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور ان کی غیر قانونی حراست سے فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کریں۔
کارکنان، وکلاء اور صحافیوں کے ایک گروہ نے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کو ایک کھلا خط لکھا اور سنگھ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ ۳۷ سالہ کمار کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلقات اور ماؤنوازوں کیلئے غیر قانونی طور پر فنڈز اکٹھا کرنے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور ہندوستانی تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جسکی بدولت وہ ۲۰۲۲ء سے جیل میں ہیں۔ ۱۱ اپریل کو جھارکھنڈ کے صحافی روپیش کمار سنگھ کو جیل میں ایک ہزار دن مکمل ہو جائیں گے۔
اپنے خط میں، سول سوسائٹی نے لکھا کہ ایک ہزار دنوں سے غیر قانونی طور پر جیل میں قید سنگھ کو ابھی تک ضمانت نہیں دی گئی۔ ان کی گرفتاری کے بعد، ان پر جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں اور انہیں چار دیگر یو اے پی اے مقدمات میں گرفتار قرار دیا گیا جو جعلی ماؤنواز مقدمات سے متعلق ہیں۔ روپیش کمار سنگھ کے خلاف متعدد مقدمات درج کرنا ہندوستانی ریاست کے اس واضح ارادے کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ انہیں طویل عرصے تک جیل میں رکھنا چاہتی ہیں اور اس عمل کو ہی سزا میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں، سپریم کورٹ نے کمار کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس سے قبل مکتوب میڈیا سے بات کرتے ہوئے، ان کی اہلیہ اور کارکن ایپسا شتاکشی نے اس حکم پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ کمار پر جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔ وہ صرف ایک صحافی ہیں جو اپنا کام کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: اترپردیش: رام نومی جلوس پر پتھراؤ کی افواہ، مسلمانوں کی دکانوں میں تخریب کاری
خط میں مزید کہا گیا کہ روپیش کمار جھارکھنڈ اور وسطی ہندوستان کے دیگر حصوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے عصمت دری، غیر قانونی گرفتاریاں اور غیر عدالتی قتل کو بے نقاب کرنے کیلئے متعدد میڈیا آؤٹ لیٹس کیلئے زمینی سطح پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔ گرفتاری سے قبل، وہ فیکٹری کے آلودہ فضلے کے عام لوگوں کی زندگیوں پر اثرات اور اس کے صحت کے مختلف مسائل کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ کمار دی وائر، نیوز کلک، جن چوک جیسے مختلف اداروں کیلئے مضامین لکھتے تھے۔
دریں اثنا، چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ کمار نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ کارپوریٹ کی وجہ سے زندگیوں اور ماحولیات کی تباہی کو بے نقاب کیا اور عوام سے جڑے مختلف مسائل پر سچائی کو سامنے لانے کے ان کے عزم کی وجہ سے انہیں برہمن پسند ہندوتوا فاشسٹ بی جے پی-آر ایس ایس حکومت نے نشانہ بنایا۔ خط کے مطابق، ابتدائی طور پر، انہیں جھارکھنڈ کی ہیمنت سورین کی سربراہی والی جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) حکومت نے نشانہ بنایا اور بعد میں این آئی اے اور دیگر ایجنسیوں نے ان کے معاملے میں مداخلت کی۔ صحافی روپیش کمار کا معاملہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ نہ صرف ہندوتوا-فاشسٹ بی جے پی ہی پریس کی آزادی کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور اختلاف رائے کو دبا رہی ہے، بلکہ مختلف ریاستوں کی دیگر حکمران سیاسی جماعتیں بھی ایسا کرتی ہیں جب ان کی عوام مخالف پالیسیوں کو ایک عوام دوست صحاف چیلنج کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مالیگائوں: گڑھ کی یاترا شروع، پولیس کا روٹ مارچ
خط میں نگرانی کے اسرائیلی آلات جیسے پیگاسس کے نشانات کمار کے فون میں پائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے، خط میں مزید کہا گیا ہے کہ خاص طور پر ریاستی مظالم، ریاست کی جانب سے عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی اور عوامی تحریکوں پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں پر حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خط کے اختتام پر تمام جمہوری اور ترقی پسند تنظیموں، صحافیوں، وکلاء، سماجی کارکنوں، اور انسانی حقوق کے محافظوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کھلے خط پر دستخط کریں اور صحافی روپیش کمار سنگھ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں اور ان کی غیر قانونی حراست سے فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کریں۔