Updated: April 26, 2025, 8:57 PM IST
| Kolkata
کولکاتا کی ایک ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سی کے سرکار نے ’’پہلگام دہشت گردانہ حملے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مسلم حاملہ خاتون کا علاج کرنے سے انکار کر دیا۔ حاملہ خاتون کی نند ایڈوکیٹ محفوظہ خاتون نے اپنے فیس بک پوسٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ ان کی بھابھی اضطراب اور مایوسی کا شکار ہیں۔ انہوں نے اسے ایک ’’غیر اخلاقی‘‘ اور ’’غیر انسانی‘‘ فعل قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر سی کے سرکار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
کولکاتا (مغربی بنگال) میں ماہر امراض نسواں کی ایک ڈاکٹر نے ایک مسلم حاملہ خاتون کو طبی علاج فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ’’پہلگام دہشت گردانہ حملے‘‘ کاحوالہ دیا۔ کولکاتا کے کستوری داس میموریل سپر اسپیشیلٹی اسپتال کی ڈاکٹر سی کے سرکار نے مبینہ طور پر ایک حاملہ خاتون کو علاج فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر کی واردات کے بعد میں کسی بھی مسلم مریض کا علاج نہیں کروں گی۔‘‘ یاد رہے کہ ’’پہلگام دہشت گردانہ حملے‘‘ کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی مہمات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس واردات کے نتیجے میں تقریباً ۲۶؍ افراد نے اپنی جانیں گنوائی تھیں جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطینیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ: ٹرمپ نے نیتن یاہوسے کہا، غزہ میں ڈبلیوایف پی کاخوراک کاذخیرہ ختم
ڈاکٹر نے مبینہ طور پر مریض سے انتہائی سفاکانہ باتیں کیں۔ یہ مریض گزشتہ ۷؍ ماہ سے ان کے یہاں زیر علاج ہے، اس کے باوجود ڈاکٹر نے کہا کہ ’’ہندوؤں کو آپ کے شوہر کو قتل کردینا چاہئے، اور پھر مجھے دیکھنا ہے کہ کیسا لگتا ہے؟ ہمیں تمام مسلمانوں پر پابندی عائد کرنی چاہئے۔‘‘ اس ضمن میں وکیل محفوظہ خاتون، جو حاملہ خاتون کی نند ہیں، نے اپنے فیس بک پر لکھا ہے کہ ’’ہم شدید مایوسی اور اضطراب کا شکار ہیں کیونکہ میری حاملہ بھابھی، جو گزشتہ ۷؍ماہ سے ڈاکٹر سی کے سرکار کے یہاں زیر علاج ہیں، ان کے علاج سے منع کرنے پر خوفزدہ ہیں۔‘‘ انہوں نے اسے ’’امتیازی سلوک کا صریح فعل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے لیکن طبی اخلاقیات اور انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف وزری ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس نفرت آمیز اور امتیازی بیان نے میری بھابھی کو جذباتی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ اس کے بعد سے رورہی ہیں، پریشان اور خوفزدہ ہیں، نہ صرف اس بے مروتی کیلئے بلکہ اس جان کیلئے بھی جو ان کے اندر پرورش پارہی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت جب انہیں تعاون، دردمندی اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی، انہیں صریح تعصب اور ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: دل کی بیماری میں مبتلا بچوں کے پاکستانی باپ کی ہندوستان میں ٹھہرنے کی اپیل
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ’’اتنے خطرناک مرحلے پر ایک حاملہ خاتون کو علاج فراہم کرنے سے انکار کرنے کے کئی سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد مذہب، ذات یا پس منظر سے قطع نظر، تمام مریضوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے اپنے حلف کے پابند ہیں۔‘‘ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ’’صحت کی دیکھ بھال ایک بنیادی حق ہے۔ یہ مذہب سے بالاتر ہے۔‘‘ انہوں نے اس طرح کے طرزعمل کے خلاف جوابدہی اور کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے اسپتال انتظامیہ، طبی حکام اور انسانی حقوق کے اداروں سے فوری کارروائی کی اپیل کی۔ اس ضمن میں سماجی کارکن مونا امبیگاؤنکر نے ڈاکٹروں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ خطرناک جرم ہے۔‘‘