Updated: April 23, 2024, 7:47 PM IST
| Seoul
کوریا کے مسلم یوٹیوبر داؤد کم نے مغربی بندرگاہی شہر انچیون میں مسجد تعمیر کروانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ زمین کی خرید و فروخت کے معاہدے کے ختم ہونے کے بعد انہوں نے یہ منصوبہ ختم کر دیا ہے۔ ان کے اس فیصلے کو تنازع کی شکل دے دی گئی ہے۔ متعدد کورین ان کے حامی جبکہ بعض ان کے خلاف ہیں۔
کوریا کے یوٹیوبر داؤد کم معاہدے کے کاغذات دکھاتے ہوئے۔ تصویر: ایکس
کوریا کے مسلم یوٹیوبر داؤد کم کا مغربی بندرگاہی شہر انچیون میں مسجد تعمیر کروانے کا منصوبہ زمین کی خرید و فروخت کے معاہدے کے منسوخ ہونے کے بعد ختم ہو گیاہے۔ خیال رہے کہ کم، جن کا کورین نام جائے ہان ہے، نے سنیچر کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور یوٹیوب پر ایک پوسٹ ڈالا تھا جس میں اعلان کیا تھا کہ جو زمین انہوں نے خریدی ہے وہاں وہ ایک مسجد کی تعمیر کروائیں گے۔ مقامی ریئل اسٹیٹ انڈسٹری نے ۲۰؍ اپریل کو بتایا کہ داؤد کم ڈاؤن پے مینٹ کیلئے کسی بھی طرح کے معاوضے کی وصولی کے بغیر زمین کے مالک کے ساتھ زمین کی خرید کے معاہدے کو ختم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ کم کے یوٹیوب پر ۵ء۵؍ملین سے زائد سبسکرائبرز ہیں اور انسٹاگرام پر ۳ء۵؍ مداح ہیں۔
جب کم داؤد کے زمین کو خریدنے کےمعاہدے کی خبر عام ہوئی تو مقامی رہائشی افراد نے مسجد کی تعمیر کی سائٹ سے اسکولوں کی قریب ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور احتجاج کیا۔ اس سے قبل کم نے ایک پریس انٹرویو میںکہا تھا کہ مقامی باشندوں کو مسجد کی تعمیر سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ تاہم، کم کے اس منصوبے کے خلاف اس وقت مخالفت بڑھ گئی جب ان کے خلاف ماضی کے جنسی جرائم کے معاملات سامنے آئے۔ ۲۰۱۹ء میں ان پر ایک غیر ملکی خاتون کو جنسی طورپر ہراساں کرنے کا الزام تھا۔ تاہم، انہوں نے ایک ویڈیو کے ذریعے اپنے بیان میں وضاحت کی تھی جس میں ان کی معافی اور خاتون کی سزا نہ دینے کی درخواست شامل تھی، اور مقدمے کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ چند دنوں قبل دادؤ کم نے کہا تھا کہ ’’میں نے آپ سبھی کی مدد سے انچیون میں ایک زمین کیلئے کانٹریکٹ پر دستخط کیا ہے جس پر مَیں مسجد کی تعمیر کرواؤں گا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ دن بھی کبھی آئے گا۔ میں نے ایک مسجد اور کوریائی باشندوں کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے ایک اسلامی پوڈکاسٹ اسٹوڈیو بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ‘‘
کم نے اپنے دستخط شدہ معاہدے کی جو تصویر شیئر کی تھی اس کےمطابق انہوں نے۱۱؍ اپریل کو جیتے ہوئے ۲ء۱۸۹؍ ملین روپے سے انچیون کے یونگ جونگ جزیرے پر ۴ء۲۸۴؍ مربع میٹر زمین خریدی تھی۔ یہ زمین یونگ جونگ اسٹیشن سے کچھ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنے بینک کی تفصیلات شیئر کی تھیں اور اپنے پروجیکٹ کیلئے مداحوں سے عطیہ کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔ انہوں نےاس ضمن میں کہا تھا کہ ’’مجھے اس عمارت کی تعمیر کیلئے مالی امدادکی ضرورت ہے۔ اگر آپ میری مدد کرنے کے خواہشمند ہیں تو عطیہ کیجئے۔ ‘‘
حیدرآباد: مسجد پر علامتی تیر چلانے پر بی جے پی کی مادھوی لتھا پر ایف آئی آر درج
انہوں نے اپنے اس پروجیکٹ کے حوالے سے مزید کہا تھا کہ ’’پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ میں یہ کرلوں گا۔ جب تک کوریا کی ہر گلی اذان کی مسحور کن آواز سے نہیں گونجتی ، میں ہر ممکن کوشش کرتا رہوں گا۔‘‘
انٹرنیٹ صارفین، جن میں زیادہ بین الاقوامی افراد ہیں، نے داؤد کم کی پوسٹ پر نیک خواہشات اور مکمل تعاون کا اظہار کیاتھاجبکہ کچھ کورین افراد نے اس منصوبے پر اعتراض بھی کیا ہے۔
داؤد کم عمرہ کے دوران۔ تصویر: ایکس
داؤد کم کو مسجد کی تعمیر کیلئے انتظامیہ کی جانب سے بھی رکاوٹوں کا سامناکرنا پڑا۔ انچیون جنگ کے ضلعی آفس کے ایک حکام نے کہا کہ ’’اس زمین کے اطراف سڑک کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے میونسپل کیلئے مذہبی اجتماع کیلئے عمارت کی تعمیر کو منظوری دینامشکل ہے۔ ‘‘کورین مسلم فیڈریشن کے مطابق کوریا میں ۱۹؍ مساجد ہیںجبکہ یہاں ۳۵؍ ہزار مسلم کورین جبکہ ۱۵۰؍ ہزار بین الاقوامی شہریت کے حامل مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں متعدد یونیورسٹیوں کا فلسطینی حامی احتجاج، سیکڑوں طلبہ کی شرکت
واضح رہے کہ کوریا کے جنوب مشرقی شہر ڈائیگو کی کیونگ پوک نیشنل یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کے گروپ کو ۲۰۲۱ء سے مقامی کمیونٹی کی جانب سےمسجد کی تعمیر کے اپنےفیصلے کیلئے مخالفتوں کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ستمبر ۲۰۲۰ء میں مقامی ضلعی آفس نے مسجد کی تعمیر کو منظوری دی تھی لیکن فوری طور پر مقامی کمیونٹی نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ ضلعی آفس نے ایک ردعمل کے بعد ، جس میں قریبی رہائش پذیر افراد نے خنزیر پکایاتھا اور اس کے سرکو مسجد کی تعمیر کی جگہ پر رکھ دیا تھا، فروری میں انتظامیہ نے مسجد کی تعمیر روکنے کا حکم جاری کیا تھا۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف کوریا نے اکتوبر ۲۰۲۱ء میں کہاتھا کہ مسجد کی تعمیر دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی جائے اور مقامی حکومت کا مسجد کی تعمیر کو روکنے کا فیصلہ غلط اور مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز تھا۔