ایلون مسک گزشتہ چند دنوں سے یورپی ممالک کی سیاست میں مداخلت کی کوشش کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوںنے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو نشانہ بنایا ہے۔ یورپ کے اہم لیڈران نے مسک کے اس عمل کی مذمت کی ہے۔
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 9:57 PM IST | Washington
ایلون مسک گزشتہ چند دنوں سے یورپی ممالک کی سیاست میں مداخلت کی کوشش کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوںنے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کو نشانہ بنایا ہے۔ یورپ کے اہم لیڈران نے مسک کے اس عمل کی مذمت کی ہے۔
یورپی لیڈروں نے دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کے بیانات پر برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے کیونکہ برطانوی حکومت کے ارکان اور امریکی منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے کلیدی اتحادی مسک کے درمیان خلیج بڑھ گئی ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے آج شمالی انگلینڈ میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر مسک کی طرف سے اپنے ایکس پلیٹ فارم پر اشتعال انگیز پوسٹس کے بعد جھوٹ اور غلط معلومات پھیلانے والوں پر تنقید کی۔ مسک، جو ٹرمپ کی انتظامیہ میں اہم عہدہ سنبھالیں گے، نے پھر سینٹر لیفٹ لیبر لیڈر پر الزام لگایا کہ وہ ’’اجتماعی عصمت دری معاملے میں ملوث‘‘ ہیں اور ’’بہت حقیر‘‘ ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: عامر خان اسٹیج کے پیچھے پانی پلاتے تھے، شاہ رخ خان بہت محنتی تھے: سجاتا مہتا
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سمیت یورپی لیڈران نے مسک کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیس ایکس کا سربراہ ’’انتخابات میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے‘‘، بشمول جرمنی میں جہاں چانسلر اولاف شولز نے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کی حمایت کرنے پر ٹیسلا کے باس کی مذمت کی ہے۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور نے پیر کو کہا کہ انہوں نے یہ ’’تشویشناک‘‘ پایا کہ اتنی دولت اور اثر و رسوخ رکھنے والا کوئی شخص یورپی ممالک کی سیاست میں شامل ہو رہا ہے۔ خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں مسک کی زیادہ تر توجہ برطانیہ اور ان تاریخی اسکینڈلز پر رہی ہے جن میں گرومنگ گینگ شامل ہیں جو ملک کے اعلیٰ پراسیکیوٹر کے طور پر اسٹارمر کے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء کے دور میں پہلی بار سامنے آئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: سعودی عرب: مدینہ میں اب سال بھر روضہ اقدسؐ کی متعدد مرتبہ زیارت کی جاسکے گی
یہ تبصرے اسٹارمر حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہیں کیونکہ وہ انتہائی دائیں بازو کی بڑھتی حمایت کو روکنے جبکہ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسٹارمر نے مرکزی اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی اور انتہائی دائیں بازو کی ریفارم یو کے پارٹی کی جانب سے نئی عوامی انکوائری کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل کی گئی آزادانہ تحقیقات ’’جامع‘‘ تھیں۔