• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آئین پر مباحثہ میں اپوزیشن کی کارکردگی کی پزیرائی

Updated: December 16, 2024, 10:28 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai

سماجی کارکنان نے لوک سبھا میں ۲؍ روزہ بحث کو خوش آئند قراردیا مگر پروفیسر اپوروانند نےمسلمانوں کو درپیش مسائل اٹھانے میں شدت کی کمی کا حوالہ دیا، باعث تشویش بتایا۔

During the debate on the Constitution in the Lok Sabha, Zia-ur-Rehman discussed the topic of Barak Sambhal. Photo: INN
لوک سبھا میں آئین پر بحث کے دوران ضیاء الرحمٰن برق سنبھل کےموضوع پر گفتگو کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

آئین ہند کے ۷۵؍ سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ  میں  ۲؍ روزہ بحث کے دوران اپوزیشن نے  موجودہ حالات میں  آئین اور آئینی اصولوں کو لاحق خطرات کا احاطہ کیااور مودی حکومت کے طرز عمل کو بے نقاب کیا،اس کی ملک کے سیکولر دانشور اور سماجی کارکنان نے کھل کر پزیرائی کی ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے یاد دہانی کرائی کہ آئین کو ملک  کے مرکزی بیانیہ کا حصہ بنانے میں شاہین باغ احتجاج کا کلیدی رول ہے جبکہ جسٹس کولسے پاٹل نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ حکومت  نے لوک سبھا میں مودی حکومت کوبڑی کامیابی کے ساتھ آئینہ دکھایا ہے۔  معروف سماجی کارکن ٹیسٹا سیتلواد نے  اس مباحثہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے  یہ واضح  پیغام دیا  ہے کہ آئین کے نسخہ کو  صرفچومنا نہیں ہے بلکہ اس کے مشمولات کو ملک میں نافذ بھی کرنا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:لیجنڈری طبلہ نواز استاد ذاکر حسین ۷۳؍سال کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے

اپوزیشن نے ایک ایک واقعہ کی نشاندہی کی: کولسے پاٹل 
 جسٹس کولسے پاٹل نے   پارلیمنٹ  میں آئین پر ہونے والےمباحثہ میں اپوزیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے حکومت کوکامیابی کے ساتھ آئینہ دکھایا ہے ۔ پرینکا گاندھی اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے آئین کے حوالے سے انصاف، برابری، ظلم اور ناانصافی کے تعلق سے ایک ایک واقعہ کی نشاندہی کی،  ہاتھرس کا حوالہ دیا ، بے روزگاری، اگنی ویر اور ملک کے موجودہ حالات میں حکومت کی ناکامیوں کو گنوایا اور یہ بتا دیا کہ یہ سب  کچھ آئین کا حصہ ہے۔ ‘‘کولسے پاٹل نے کہا کہ ’’یہ بحث بہت اہم تھی اور اپوزیشن نے اچھی تیاری کی تھی اس لئے میں اسے پورے نمبر دوں گا۔ جہاں تک  وزیر اعظم کے جواب کی بات ہے تو پہلی بات تو یہ کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران مودی جی  الہ آباد میں گنگا کی سیر کررہے تھے۔ انہوں نے بحث کے جواب میں ۸۰؍ منٹ تک جو کچھ کہا وہ صرف بچنے اور موضوع سے ہٹنے کی کوشش تھی۔‘‘ سابق جج نے اس بات پر افسوس کااظہار کیا کہ ’’آئین پر ہونے والی بحث کے جواب میں بھی انہوں نے عادت کے مطابق نفرت پھیلانے کی کوشش کی جو وزیر اعظم جیسے انتہائی اہم عہدے کے قطعا منافی  ہے۔  حکومت کا کام ذمہ داری سے بچنا اورںادھر ادھر کی باتیں کرنا نہیں بلکہ ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ اس لئے اپوزیشن کو اپنا یہ کام مسلسل کرنا ہوگا اور اسی طرح حکو‌مت کو  آئینہ دکھاتے رہنا ہوگا۔‘‘
آئین اتنا موضوع بحث پہلے کبھی نہیں بنایا: اپوروانند
 پروفیسر اپوروانند نے  آئین کے زیر بحث آنے کا کریڈٹ شاہین باغ کے تاریخی احتجاج کو دیا اور کہا کہ’’ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ گزشتہ دس گیارہ سال میں آئینی حقوق پامال کئے جانے کے باوجود آئین اتنا زیادہ موضوع بحث کبھی نہیں تھا۔  یہ خوش آئند ہے اور اس میں شاہین باغ ایک طرح سے ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ ‘‘
  انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین مجموعہ ہے انصاف، یکجہتی، مساوات اور برابری کا ۔ اگر اس میں کہیں سے کوئی کمی آتی ہے تو اس کی نشاندھی اپوزیشن کی ذمہ داری اور اصلاح حکومت کا فرض ہے۔ ‘‘ آئین پر  بحث کے اپوزیشن  کے مطالبےاوراس میں کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا کہ ’’ اپوزیشن نے اچھی پہل کی ہے۔ لیکن محض ۲؍دن کی پارلیمانی بحث کافی نہیں ہے اپوزیشن کو سڑک پر رہ کر بھی حکومت کو یہ باور کراتے رہنا ہوگا کہ وہ حکو‌مت کو من‌ مانی  کا موقع نہیں دے گی۔‘‘ انہوں نے البتہ  اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ’’بحث کے دوران مسلم اراکین پارلیمان  نے تو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی نشاندہی کی  لیکن کسی غیر مسلم ایم پی نے اتنی شدت سے ان معاملات کو نہیں اٹھا جتنی شدت سے اٹھانا چاہئے تھا۔ حکومت نے اس پر کچھ کہا اور نہ ہی سیکولر ازم کے حوالے سے کسی نے کچھ کہا یہ انتہائی خطرناک ہے۔‘‘  

یہ بھی پڑھئے:شام میں ایک ہفتے کے تعطل کے بعد اسکول دوبارہ کھل گئے

آئین کو صرف چومنا نہیں نافذ بھی کرنا ہے: ٹیسٹا
معروف سماجی خدمت گار ٹیسٹا سیتلواد نے بھی اس مباحثہ کو  اچھی بحث  قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اروند ساونت، اقراء حسن، پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی وغیرہ نے کھل کر اپنی بات رکھی اور حکومت کو آئین کی یاد دلائی کہ اسے صرف چومنا نہیں ہے  بلکہ نافذبھی کرنا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ پارلیمانی انتخابات اور اپوزیشن کی مضبوطی کا یہ کھلا مظاہرہ تھا۔ ‘‘انہوں نےکہا کہ’’ مگر اسی بحث پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو سڑک پر اپنی نمائندگی درج کرانی ہوگی اور حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ نہ تو وہ حکومت کو من‌ مانی کا موقع دے گی اور نہ ہی عوام کے آئینی حقوق پامال کئے جانے پر خاموش تماشائی بنی رہے گی، عوام نے اسے جو ذمہ داری دی ہے اس سے کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK