مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو کی طرف سے دیواس ضلع کے ۵۴؍گاؤں کے نام تبدیل کرنے کے حالیہ اعلان نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
EPAPER
Updated: February 13, 2025, 10:03 PM IST | Bhopal
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو کی طرف سے دیواس ضلع کے ۵۴؍گاؤں کے نام تبدیل کرنے کے حالیہ اعلان نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی موہن یادو کی طرف سے دیواس ضلع کے ۵۴؍گاؤں کے نام تبدیل کرنے کے حالیہ اعلان نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔یہ فیصلہ، جس میں مسلم تاریخی شخصیات سے جڑے دیہاتوں کے ناموں کو تبدیل کرنا شامل ہے، حکومت نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ مبینہ طور پر مقامی جذبات کی عکاسی کرنے کے ایک قدم کے طور پریہ فیصلہ لیا ہے۔تاہم،اس اقدام کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے، ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھا سکتا ہے اور خطے کی متنوع تاریخی شناخت کو مٹا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: وارانسی: فرقہ وارانہ منافرت کے درمیان مسلم شخص نے انسانیت کی عظیم مثال پیش کی
پپل رواں گاؤں میں ایک تقریب میں، وزیر اعلیٰ یادو نے باضابطہ طور پر بی جے پی کے ضلع صدر رائے سنگھ سندھو کی طرف سے ضلع کے کئی گاؤں کے نام تبدیل کرنے کی تجویز کو قبول کر لیا۔ان کی دلیل تھی کہ نام کی یہ تبدیلی مقامی باشندوں کی خواہشات کے مطابق ہے۔اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے ضلع کلکٹر کو ہدایت دی کہ وہ نام کی تبدیلیوں کو نافذ کرنے کیلئے ضروری انتظامی اقدامات شروع کریں۔ متاثرہ دیہاتوں میں مراد پور، حیدر پور، شمس آباد اور اسلام نگر شامل ہیں، جن کا نام بدل کر بالترتیب مرلی پور، ہیرا پور، شیام پور اور ایشور پور رکھا جائے گا۔ سندھو نے مزید کہا کہ یہ اقدام استعمار کی علامتوں کو ختم کرنے اور ہماری جڑوں کی بحالی کیلئے اہم ہے۔‘‘
بھوپال میں مقیم ایک تاریخ دان ڈاکٹر میرا شاہ نے کہاکہ ’’مسلم شخصیات سے جڑے دیہاتوں کا نام تبدیل کرنا اس ثقافتی تنوع کو مٹانے کی ایک واضح کوشش ہے جس نے صدیوں سے اس سرزمین کو تشکیل دیا ہے۔یہ ثقافت کے تحفظ کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایک مخصوص ایجنڈے کے مطابق تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے۔‘‘ اس کے علاوہ اس فیصلے سے شمس آباد جیسے دیہات میں تشویش پائی جارہی ہے، جہاں کے رہائشیوں نے نام تبدیل کرنے کےتعلق سے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ہے۔اس علاقے کے ایک شخص سرویش نے کہا کہ ’’ہمارے گاؤں کا نام نسلوں سے ہماری شناخت کا حصہ رہا ہے۔ اب اسے تبدیل کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا ایک حصہ کھو رہے ہیں۔ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اپنی جڑوں کو بھولنے کی قیمت پر نہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: کشی نگرکی مدنی مسجد کا معاملہ: جمعیۃ علماء نے پولیس کپتان کیخلاف وزیراعلیٰ سے شکایت کی
اس فیصلے پر سیاسی اور سماجی مبصرین کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ثقافتی ورثے کو فروغ دینےکیلئےگاؤں کا نام تبدیل کرنا ایک ضروری قدم ہے، جبکہ دوسروں کو خدشہ ہے کہ یہ پہلے سے متنوع معاشرے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔ صحافی عائشہ ملک نے کہا کہ’’ اس فیصلے سے سماج کے درمیان گہرے اختلافات کا خطرہ ہے۔ ہندوستان تکثیریت کی سرزمین ہے، اور گاؤں کے نام تبدیل کرنے سے مزید اختلاف پیدا ہوگا۔‘‘
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزیر اعلیٰ نے نام تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہو۔ جنوری میں بھی یادو نے شاہجاپور ضلع کے ۱۱؍ گاؤں کے نام تبدیلی کرنےکا اعلان کیا تھا۔اس کے علاوہ اجین کے تین گاؤں جن میں مولانا، غزنی کھیڑی، اور جہانگیر پور شامل ہیں، کا نام تبدیلی کرنے کا اعلان کیا تھا۔اب یہ دیکھنا ہے کہ نام کی یہ تبدیلی خطے میں تبدیلی لائے گی یا خطے کو مزید تقسیم کرے گی۔