غزہ میں اسرائیلی مظالم نے اسرائیل حامی معروف انگریز شاعر کو بھی اپنا نظریہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔ بچوں کے ادیب مائیکل روزن نے اپنی تازہ ترین نظم میں نہ صرف اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی، بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کیلئے مغرب اور امریکہ کو بھی ذمہ دار قرار دیا ۔
معروف انگریز شاعر مائیکل روزن۔ تصویر: ایکس
معروف انگریز مصنف، شاعر، اور سرگرم کارکن مائیکل روزن، جن کا بچوں کے ادب اور یہود مخالف بیداری پیدا کرنے میں بڑا تعاون ہے، اب اپنی قلم کی دھار کا رخ اسرائیلی مظالم کے مخالف کر لیا ہے۔انادولو کے ساتھ ایک انٹرویو میں، روزن نے مغربی میڈیا اور امریکی خارجہ پالیسی پر کڑی تنقید کی، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی اب اپنے دوسرے سال میں ہے اور اس کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔تا عمر ظلم کے خلاف لڑنے والے اس برطانوی یہودی کارکن نے اسرائیلی جرائم پر واضح تنقید کی۔حالانکہ ان کے اس موقف کے نتیجے میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے، لیکن وہ اپنے موقف پر ثابت قدم ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: ہیلتھ کیئر سسٹم پر حملہ معمول بن گیا ہے: ٹیڈروس ادھانوم گیبرئیس
اپنی حالیہ نظم جو مائیکل روزن ڈے پرجاری کی گئی،اس میں انہوں نے اسرائیلی مظالم کو جائز ٹہرانے یا اسرائیلی درندگی کو کم تر دکھانے پر مغربی میڈیا پر تنقید کی ہے۔ان کی شاعری میں فلسطینی بچوں کی نسل کشی، منظم نسل پرستی، مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی مخالف پرتشدد قتل و غارت اور فلسطینی علاقوں میں نسلی تطہیر کے وسیع تراسرائیلی منصوبے پرتوجہ دی گئی ہے۔ روزن نے غزہ کے حالات کو انتہائی تباہ کن قراردیا، جبکہ اسرائیل کے ذریعے مسلسل حملوں نے اس کی سنگینی میں بے انتہا اضافہ کیا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیلی مظالم میں امریکی کردار کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔اور امریکی بیان بازی اور اس کے اقدامات کے تضاد کو بھی اجاگر کیا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی کہا اسرائیل کو امریکی فوجی مدد جاری رکھنا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔اور امریکی شمولیت پر سوال کھڑے کئے، کہ آیا وہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ ان کے عزائم کا مطلب ہے، مزید جنگ، مزید تباہی، جو بقیہ دنیا کو بھی متاثر کرے گی۔
یہ بھی پڑھئے: اہل غزہ کو نشانہ بنانے کیلئےاسرائیلی ڈرونز خواتین کی آہ و فغاں نشر کررہے ہیں
ایک شاعر کے طور پر انہوں نےاپنے خدشات اور احساسات کو اپنی نظم کے پیرائے میں بیان کردیا ہے۔اس نظم کے آخر انہوں نے امریکیوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے، ان کے مطابق یہ ستم ظریفی ہے کہ امریکی ان حالات سے فکر مند ہیں، افسردہ ہیں، اور متاثر ہیں، ایسے وقت میں ایک ڈاکٹر آتا ہے، اور انہیں اس غم سے نجات دلانے کا ایک نسخہ بتاتاہے، اور وہ نسخہ ہے، مزید ڈرون، مزید طیارے، مزید بم۔