اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فار رفیوجیز کی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں جبراً بے گھر ہونے والے تقریباً ۹؍ کروڑ افراد ایسے ممالک میں پناہ گزین ہیں جہاں بڑے پیمانے پر موسمی تبدیلیاں انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔
EPAPER
Updated: November 12, 2024, 8:59 PM IST | Baku
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فار رفیوجیز کی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں جبراً بے گھر ہونے والے تقریباً ۹؍ کروڑ افراد ایسے ممالک میں پناہ گزین ہیں جہاں بڑے پیمانے پر موسمی تبدیلیاں انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔
پناہ گزینوں کیلئے سرگرم، اقوام متحدہ کی ایجنسی نے منگل کو خبردار کیا کہ دنیا میں تقریباً ۱۲؍ کروڑ سے زائد بے گھر افراد کی نصف سے زائد تعداد، عالمی موسمی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم کہ انہیں حکومتوں کی مدد اور فنڈنگ بھی دستیاب نہیں ہے۔ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری ۲۹؍ ویں کانفرنس آف دی پارٹیز (سی او پی ۲۹) میں اقوامِ متحدہ کے ادارے ہائی کمشنر فار رفیوجیز نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق، دنیا بھر میں جبراً بے گھر ہونے والے ۱۲؍ کروڑ سے زائد افراد کا ۷۵؍ فیصد یعنی تقریباً ۹؍ کروڑ افراد ایسے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں بڑے پیمانے پر موسمی تبدیلیاں انسانی زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً ۶؍ کروڑ افراد ایتھوپیا، ہیتی، میانمار، صومالیہ، سوڈان اور شام جیسے ممالک میں رہائش پذیر ہیں جہاں وہ تنازعات اور موسمیاتی خطرات دونوں سے گھرے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں پناہ: ہندوستانیوں کی تعداد ۲۰۲۱ء کے مقابلے ۲۰۲۳ء میں ۸۵۵؍ فیصد بڑھی
رپورٹ کے مطابق، ۲۰۴۰ء تک، انتہائی موسمی تبدیلیوں سے جڑے خطرات کا سامنا کرنے والے ممالک کی تعداد ۳؍ سے بڑھ کر ۶۵؍ تک پہنچ جائے گی جن میں زیادہ تر وہ ممالک ہوں گے جہاں بے گھر افراد کا تناسب زیادہ ہے۔ اسی طرح، ۲۰۵۰ء تک زیادہ تر رفیوجی بستیوں اور کیمپوں کو ’’خطرناک حد تک گرم دنوں کی دگنا تعداد‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے رفیوجی، فلیپو گرانڈی نے کہا کہ دنیا کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کے لئے، موسمی تبدیلی ایک تلخ حقیقت ہے جو ان کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔ موسمی بحران، تیزرفتاری سے ان خطوں میں پہنچ رہا ہے جہاں پہلے ہی تنازعات اور عدم تحفظ کی وجہ سے بڑی تعداد میں مہاجرین پناہ گزین ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ہیلی کاپٹر سے اترتے ہی بیگ کی تلاشی، ادھو ٹھاکرے برہم
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع کی وجہ سے لاکھوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اور تقریباً ۷؍ لاکھ افراد چاڈ میں داخل ہوئے ہیں جو موسمی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق، میانمار کے ۷۲؍ فیصد مہاجرین نے بنگلہ دیش کا رخ کیا ہے جو قدرتی آفات سے متاثر ممالک میں شامل ہے۔ رپورٹ میں موسمی فنڈنگ کے مسئلہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ موسمی فنڈنگ، جنگ زدہ ممالک میں پناہ گزینوں، میزبان ممالک اور دیگر متاثرین تک پہنچنے میں ناکام ہوئی ہے جس سے خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ انتہائی نازک حالات سے گزر رہے ممالک کو سالانہ فنڈنگ میں صرف ۲ ڈالر فی شخص موصول ہوئے ہیں جو قدرے کم نازک حالات سے متاثر ممالک کو موصول ہوئے ۱۶۱؍ ڈالر فی شخص کی امداد سے نہایت کم ہے۔ گرانڈی نے کہا کہ موسمیاتی ایمرجنسی ایک گہری ناانصافی کی نمائندگی کرتی ہے۔ انہوں نے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا: "مناسب وسائل اور مدد کے بغیر، متاثرہ افراد کو نہایت برے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔