ایم پی ہائی کورٹ نے ایسے معاملات، جہاں مسلم پرسنل لاء مخصوص دفعات فراہم نہیں کرتا ہے، میں فیملی کورٹ کے فیصلہ کرنے کی قانونی طاقت کا جائزہ لیا۔
EPAPER
Updated: January 11, 2025, 8:03 PM IST | Inquilab News Network | Bhopal
ایم پی ہائی کورٹ نے ایسے معاملات، جہاں مسلم پرسنل لاء مخصوص دفعات فراہم نہیں کرتا ہے، میں فیملی کورٹ کے فیصلہ کرنے کی قانونی طاقت کا جائزہ لیا۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی گوالیار بنچ نے جمعہ کو فیصلہ سنایا کہ جو مسلم مرد، مسلم میرج ایکٹ ۱۹۳۹ء کے تحت براہ راست طلاق نہیں لے سکتے ہیں، انہیں فیملی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہائی کورٹ نے زور دیا کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت قانونی ضابطے کی عدم موجودگی، مسلم مردوں کو طلاق کے حق سے محروم نہیں کرسکتی۔ عدالت نے ایسے مسلم مردوں کے طلاق کے حق کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ وہ طلاق حاصل کرنے کیلئے فیملی کورٹ ایکٹ ۱۹۸۴ء کے سیکشن ۷ کے تحت فیملی کورٹ سے طلاق کا حکمنامہ حاصل کرسکتے ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی جسٹس آنند پاٹھک اور جسٹس ہردیش پر مشتمل ڈویژن بنچ، فیملی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف محمد شاہ کی اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔ شاہ نے فیملی کورٹ ایکٹ کے سیکشن ۷ کے تحت زنا کی بنیاد پر طلاق کی درخواست دائر کی تھی۔ فیملی کورٹ نے اس کے مقدمے کو مسلم قانون کے تحت نااہل سمجھتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔ شاہ نے اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی اور ہائی کورٹ نے ایسے معاملات، جہاں مسلم پرسنل لاء مخصوص دفعات فراہم نہیں کرتا ہے، میں فیملی کورٹ کے فیصلہ کرنے کی قانونی طاقت کا جائزہ لیا۔ عدالت نے ایک فیملی کورٹ کے فیصلے کو رد کردیا جس میں ایک مسلمان مرد کو طلاق کے حکم نامہ کی عرضی دینے کے حق سے انکار کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے کو فیملی کورٹ میں فیصلے کے لئے بھیج دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سنبھل جامع مسجد کے کنویں کی پوجا پر روک
عدالت نے نوٹ کیا کہ ۱۹۳۹ء کا ایکٹ مسلم خواتین کو طلاق لینے کا خصوصی حق فراہم کرتا ہے لیکن مردوں کیلئے اس قانون میں متوازی دفعات موجود نہیں ہیں۔ عدالت نے مشاہدہ کیا: "۱۹۳۹ء کے ایکٹ میں موجود دفعات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مرد کے پاس شادی کی تحلیل کا حکم نامہ حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے ۱۹۸۴ء کے ایکٹ کا سہارا لینا ہوگا۔" عدالت نے نشاندہی کی کہ فیملی کورٹ ایکٹ ۱۹۸۴ کے سیکشن ۷(۱)(د) کے تحت، عدالتوں کو، سماج یا پرسنل لاء سے قطع نظر، ازدواجی تعلقات سے پیدا ہونے والی کارروائیوں کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے مزید کہا، "یہ قاعدہ ذات اور برادری کی بنیاد پر فرق نہیں کرتا، یہ اپنی فطرت میں وسیع ہے۔"
یہ بھی پڑھئے: یوگی کامسلمانوں کو انتباہ’’کمبھ میں آستھا ہو تبھی آئیں ورنہ گڑبڑی پر سزا ملے گی ‘‘
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی جس میں آئینی اصولوں کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ بنچ نے کہا، "آئینی اخلاقیات اور اس کی روح بھی یہ حکم دیتی ہے کہ کسی بھی شخص کو انصاف سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ٹرائل کورٹ کے استدلال کو قبول کر لیا جاتا تو ایک مسلمان مرد اپنی شکایات کو پیش کرنے کیلئے انصاف یا عدالتی فورم تک رسائی کے بیش قیمت حق سے محروم ہو جاتا۔ یہ کبھی بھی آئینی روح، اخلاقیات اور انصاف کے آئینی نظریہ کے مطابق نہیں ہو سکتا۔" ہائی کورٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرائل کورٹ نے برقراری کی بنیاد پر کیس کو خارج کرکے غلطی کی ہے۔ اس طرح، فیملی کورٹ کی برطرفی کو رد کرتے ہوئے، عدالت نے معاملے کو دوبارہ غور کے لئے نچلی عدالت کو سونپ دیا۔