ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوانوں کی رہنمائی کیلئے خصوصی نشست۔ قانونی مدد فراہم کرانے والوں میں شامل سینئر وکیل اجے گائیکواڑ نے کھل کر اظہار خیال کیا ۔ خدمات انجام دینے والے وکلاء کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
EPAPER
Updated: December 16, 2024, 1:46 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوانوں کی رہنمائی کیلئے خصوصی نشست۔ قانونی مدد فراہم کرانے والوں میں شامل سینئر وکیل اجے گائیکواڑ نے کھل کر اظہار خیال کیا ۔ خدمات انجام دینے والے وکلاء کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
یہاں ۱۱؍ ماہ قبل رونما ہونے والے تشدد کے معاملے میں ضمانت پر رہا ہونے والے۱۶؍ نوجوانوں کی رہنمائی کے تعلق سے اتوار کو علی ہال (حیدری چوک ) پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں نوجوانوں کے والدین اور ذمہ دار شخصیات نے بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر عظیم الدین نے اس نشست کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم بھارتیہ‘ کی جانب سے اس پروگرام کے تین مقاصد ہیں ۔ اوّل یہ کہ جن وکلاء نے بے لوث ہوکر خدمت کی ہے، ان کی حوصلہ افزائی، دوسرے وہ نوجوان جو رہا ہوکر آئے ہیں، وہ قانونی طور پر کیسے محفوظ رہیں اور آئندہ ان کو پولیس کے چنگل اور غلط طریقے سے پھنسانے سے کیسے بچانا ہے اور تیسرے چھوٹنے والوں کا آئندہ کا منصوبہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ضمانت پر رہا ہونے والے تمام نوجوان یہ سمجھیں کہ وہ بے قصور ہیں، ان کو پھنسایا گیا۔ اس لئے وہ اپنے ذہن میں قطعاً منفی خیالات نہ لائیں۔
مثالی اتحاد کا پیغام
قانونی مدد فراہم کرانے میں اہم رول ادا کرنے والے ایڈوکیٹ راجے گائیکواڑ نے کہا کہ اس معاملے میں لوگوں نے ایک مثالی اتحاد کا پیغام دیا اور ساتھ رہ کر لڑائی لڑی، یہ بہت بڑا پیغام ہے۔
یہ بھی پڑھئے:یرغمالوں کی رہائی کیلئے اسرائیل میں ہزاروں افراد کا پھراحتجاجی مظاہرہ
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں ۴۰؍ سال سے بطور وکیل خدمات انجام دے رہا ہوں اور کریمنل لائر ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار اور جھجک نہیں کہ ان بچوں کو۱۱؍ ماہ جیلوں میں رکھا گیا، انہیں تو گیارہ دن بھی نہیں رہنا چاہئےتھا۔
’’ہم آخر کب تک بلی کا بکرا بنتے رہیں گے‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بچے کسی تنظیم یا جماعت سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہ بلی کے بکرے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ آخر کب تک ہم بلی کا بکرا بن کرجئیں گے۔ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں تھا، وہ اپنے بچاؤ میں آئے لیکن سرکار کی جانب سے سازش کے تحت ان کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی سی پی نے قبول کیا تھا کہ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں تھا، یہ محض سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آگئے۔ اسی بنیاد پر تمام وکلاء نے محنت کی اور لگ کر کام کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ بچے (جیل سے) باہرآئے ورنہ ان کے باہر آنے کے امکانات نہیں تھے۔ ایڈوکیٹ گائیکواڑ نے یہ بھی بتایا کہ میں جیل میں گیا اور بچوں کو حوصلہ دیا کہ کوئی معاملہ نہیں ہے، گھبراؤ مت تم سب چھوٹ جاؤ گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں پولیس نے ستایا، سرکاری وکیل نے ستایا اور خود دویندر فرنویس نے اس معاملے کو الجھانے میں دلچسپی لی مگر ہمیں گھبرانا نہیں ہے، ہم سب مل کر لڑیں گے۔ اس کے علاوہ ذمہ داران یہ یاد رکھیں کہ مسجد سے گھر، گھر سے مسجد تک محدود رکھنے کے علاوہ ہمیں بیداری لانی ہوگی، ہمیں اس جانب خاص توجہ دینی ہوگی۔
ایڈوکیٹ گائیکواڑ نے ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوانوں کو محفوظ رکھنے اور پولیس کے پھنسانے کے تعلق سے کہا کہ کوئی معاملہ ہوگا، مذہبی پروگرام ہوگا تو ہوسکتا ہے کہ پولیس ان کو ہفتہ پندرہ دن کیلئے اندر کرسکتی ہے، چیپٹر کیس لگاسکتی ہے۔ ہم اس کیلئے ہائی کورٹ جاکر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ ان نوجوانوں کو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور سب کے اوپر سے یہ داغ دھل جائے۔ انہوں نے قید میں مظالم کی روداد بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان ملزمین کو تھانے سینٹرل جیل میں ایک ماہ تک رکھا گیا اور محض دس منٹ کیلئے چھوڑا جاتا تھا۔ اسی طرح بعد میں ایک گھنٹہ چھوڑا گیا۔ یہ کھلی زیادتی اور قانون کا مذاق اور قیدیوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ اس کے تعلق سے آواز بلند کرنے پر دیگر قیدیوں جیسا سلوک شروع کیا گیا۔ ہم تمام بچوں کے بیانات ہائی کورٹ میں پیش کریں گے اور پولیس کمشنر سے ملاقات کریں گے کہ ان نوجوانوں کو مزید پریشان نہ کیا جائے۔ آپ لوگ یاد رکھئے کہ اگر پولیس کی طرف سے کچھ بھی کیا جائے تو فورا ایڈوکیٹ شہود انور اور دیگر وکلاء کو مطلع کریں۔
اس معاملے میں پیش پیش رہنے والے عاطف شیخ نے کہا کہ میری ستائش کی جارہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ اس میں ہمارے دیگر رفقاء دیوار بن کر کھڑے رہے، اسی سے یہ کامیابی ممکن ہوسکی ہے۔ انہوں نے ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے والدین کی قربانی کو ذہن میں رکھیں اور ان کا ہرحال میں احترام کریں۔
یہ بھی پڑھئے:اپوزیشن کوجمہوریت اور الیکشن کمیشن پر بھروسہ نہیں: فرنویس
’’یہ میرا کمال نہیں فضل الٰہی ہے ‘‘
اس کیس میں نمایاں خدمات انجام دینے والے ایڈوکیٹ شہود انور نقوی جذباتی ہوگئے اور روتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں میرا کمال نہیں ہے، یہ سب قدرت کی مہربانی سے ممکن ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ ‘‘ نہوں نے کورٹ کے رویے پر حیرت کا اظہار کیا ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ تنظیموں اور یہاں موجود شخصیات نے اپنے طور پر ہر ممکنکوشش اور مالی مدد بھی کی۔ آج کے دن ہم کو یہ طے کرنا ہے کہ ہم منظم ہوکر کام کریں اور بلاتاخیر اس کیلئے ترتیب بنائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں خوف نہیں دلا رہا ہوں بلکہ حالات کی آہٹ کی بناء پر آگاہ کررہا ہوں کہ اگر ہم منظم نہ ہوئے تو شاید آج جو کچھ ممکن ہوا ہے اور جو کامیابی ملی ہے اس کے تعلق سے سوچنا بھی ممکن نہ ہو۔
’’باؤنڈ پر دستخط نہ کریں ‘‘
ایڈوکیٹ شہود انور نے کہا کہ ہمارے نوجوان یہ ذہن میں رکھ لیں کہ اگر پولیس کی جانب سے کسی باؤنڈ پر دستخط کرایا جائے تو ہرگز دستخط نہ کریں، ان سے کہیں کہ ہمیں نوٹس دیجئے پھر ہم قانونی طور پر آگے بڑھیں گے اور حکمت عملی کے ساتھ کیس سے بری کرانے کا عمل شروع کریں گے۔
’ میں جذباتی ہوگیا تھا‘‘
ساجد شیخ جن کے دو بچے جیل میں تھے، نے کہا کہ میں عدالت میں وکلاء کے سامنے جذباتی ہوگیا تھا، میں معذرت چاہتا ہوں لیکن اس وقت میں اپنے بچوں کی حالت دیکھ کر جذباتی ہوگیا تھا۔
حیدری جامع مسجد کے سابق صدر ساجد بھائی نے کہا کہ ہم سب مل جل کر کام کریں تو اسی طرح کے نتیجے کی امید ہے۔ اس موقع پر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جن طلبہ کا امتحان رہ گیا، ان کی تعلیم مکمل کرانے کا نظم کیا جائے گا۔ اس موقع پر والدین نے اپنے بچوں اور وکلاء کو مٹھائی کھلاکر خوشی کا اظہار کیا۔