مظفر نگر کے ایک اسکول میں ترپتا تیاگی نامی ٹیچر کے ذریعےمسلم طالب علم کو غیر مسلم طلبہ سے تھپڑ مروانے کے معاملے میں درج مفاد عامہ کی سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ شادان فراست نے عدالت سے کہا کہ حکام مذہبی امتیاز کے مسئلے کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: November 29, 2024, 5:07 PM IST | Lukhnow
مظفر نگر کے ایک اسکول میں ترپتا تیاگی نامی ٹیچر کے ذریعےمسلم طالب علم کو غیر مسلم طلبہ سے تھپڑ مروانے کے معاملے میں درج مفاد عامہ کی سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ شادان فراست نے عدالت سے کہا کہ حکام مذہبی امتیاز کے مسئلے کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔
سینئر ایڈوکیٹ شادان فراسات نے جمعرات کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ اتر پردیش آر ٹی ای قانون ۲۰۱۱ء کا قاعدہ ۵؍تعلیمی اداروں میں بچوں کو مذہبی امتیاز سے بچانے کیلئے موجود ہے،اس کے باوجود حکام اس مسئلے کو نہ ہی تسلیم نہیں کر رہے ہیں اورنہ ہی اسے حل کر رہے ہیں۔لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق عدالت مظفر نگر میں مسلم لڑکے کو تھپڑ مارنے اور حق تعلیم قانون ۲۰۰۹ءکے نفاذ سے متعلق کارکن تشار گاندھی کی طرف سے دائرمفاد عامہ کی سماعت کر رہی تھی۔اس میں اتر پردیش میں ایک استاد کے ذریعہ مذہب کی بنیاد پر ایک مسلم نابالغ طالب علم کو جسمانی سزا دینے کا الزام شامل ہے۔شادان نے عدالت میں مزید کہا کہ دوسرا مسئلہ مذہبی امتیاز کا ہے۔ اصول یہ ہے کہ پہلے ہم حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، پھر اس نمٹتےہیں، جبکہ اتر پردیش میں مذہبی امتیاز کو مسئلہ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، اور پھر مخصوص انداز میں اس سے نمٹتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ہائی کورٹ میں سنبھل مسجد کے سروے کے خلاف درخواست درج نہ ہونے تک روک: سپریم کورٹ
شادان نے اس معاملے میں تین اہم مسائل پر روشنی ڈالی، سب سے پہلے حق تعلیم ایکٹ کے سیکشن ۱۲(۱) (سی)کا مکمل نفاذ۔، جس میں یہ لازمی ہے کہ نجی غیر امدادی غیر اقلیتی اسکول پسماندہ طبقات کے بچوں کے لیے داخلہ سطح کی کم از کم ۲۵؍فیصد نشستیں مختص کریں۔ دوسرا مسئلہ مذہبی امتیاز کا ہے۔ تیسرا، مقدمے میں داخل کی گئی چارج شیٹ، جس میں فراست نے دعویٰ کیا ہےکہ ایسا نہیں لگتا کہ وہ جوینائل جسٹس ایکٹ کے سیکشن ۷۵؍ کی دوسری شق کا مطالبہ کرتی ہے، جیسا کہ اس سے قبل عدالت نے ہدایت دی تھی۔جسٹس ابھے اوکا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے اتر پردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرشاد کو اگلی تاریخ پر حاضر ہونے کی ہدایت دی۔
یہ بھی پڑھئے: میرٹھ: ۱۹؍ سالہ مسلم نوجوان کو زدوکوب کرکے جے شری رام کہنے پر مجبور کیا گیا
واضح رہے کہ یہ مفاد عامہ ایک وائرل ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد داخل کی گئی تھی، ے جس میں ایک ٹیچر، ترپتا تیاگی، طالب علموں کو ایک سات سالہ مسلم لڑکے کو تھپڑ مارنے اور اسلام مخالف تبصرہ کرتے ہوئے دکھایا گیاتھا۔یہ واقعہ اگست ۲۰۲۳ء میں پیش آیا تھا، اور بڑے پیمانے پر عوامی غم اور غصے کا باعث بنا۔سپریم کورٹ نے پہلی نظر میں پایا کہ ریاستی حکومت مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک، اور جسمانی طور پر ہراساں کرنے پر پابندی لگانے میں ناکام رہی ہے۔اسی کے ساتھ عدالت نے اتر پردیش پولیس کی جانب سے اس معاملے کی ابتدائی تحقیقات اور ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر پر بھی عدم اطمنان کا اظہار کیا ہے۔اور اس معاملے کی نگرانی کر رہی ہے۔