Updated: August 24, 2024, 11:18 AM IST
| Yangon
میانمار میں جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر حکومت پر قابض فوجی حکومت کی مخالفت میں کئی باغی گروپ مسلح مزاحمت کر رہے ہیں، اسی کے ساتھ فوج پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جاتا تارہا ہے، حالیہ واقع میں فوج نے ایک گھر پر چھاپہ مارکر دو گوریلائوں کے ساتھ دو فری لانس صحا فیوں کو بھی قتل کر دیا۔
خانہ جنگی سے متاثر میانمار میں فوج نے ایک صحافی کے گھر پر چھاپہ مارکر دو صحافیوں کو ہلاک کر دیا جس میں ایک صحافی کو مبینہ طور پر گرفت میں لینے کے بعد ہلاک کیا گیا۔ یہ واقعہ جنوبی میانمار کی ریاست مون میں پیش آیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ۲۶؍ سالہ ون ہتوت او فری لانس صحافی تھا جوآن لائن خبر ایجنسی ڈی وی بی کیلئے کام کرتا تھاجبکہ دوسر اصحافی ۲۸؍ سالہ ہتیت میات تھوہے۔ آنگ سان سوچی حکومت کو بے دخل کرنے کے بعد قائم ہوئی فوجی حکومت کے ذریعے کی گئی صحافیوں کی یہ تازہ ترین ہلاکتیں ہیں۔ قتل اور گرفتاری پر نظر رکھنے والے ایک صحافی کے مطابق اس سے قبل ۵؍ اور صحافیوں کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ دیگر کئی صحافیوں کو اذیت دی گئی تھی۔نیو یارک میں قائم صحافیوں کے تحفظ کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے نمائندے شائون کرسپن نے ان صحافیوں کی ہلاکت کو وحشیانہ قرار دیا ہے اورمیانمار حکام سے خاطیوں کو سخت سزادینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں پانی سے متعلقہ تشدد کا ذمہ داراسرائیل ہے: واٹر کانفلیکٹ کرونولوجی
واضح رہے کہ میانمار میں فوجی حکومت قائم ہونے کے بعد صحافیوں کیلئے یہ خطہ ایک بڑی جیل میں تبدیل ہو گیا ہے۔فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ نے جس کا نام رپورٹر ودائوٹ بارڈر ہے نے ۲۰۲۴ء میں صحافیوں کی آزادی کے زمرے میں کل ۱۸۰؍ ممالک کی فہرست میں میانمار کو تقریباً آخری ۱۷۱؍ مقام پر رکھا ہے۔ڈی وی بی نے اسوشیٹیڈ پریس کو بتایا کہ ۳۰؍ فوجیوں نے صبح ۹؍ بجے ہتیت میات تھو کے گھر پر چھاپہ مارا اس وقت اس کے ساتھی جن کا تعلق ایک مزاحمتی گروپ کایاکھتو ریوولوشن فورس سے تھا ملاقات کیلئے آئے ہوئےتھے۔ فوجی حکومت کی مخالفت میں قائم یہ گروپ ۲۰۲۱ء میں تشکیل دیا گیا تھا،۔ڈی وی بی کی سربراہ کھن یوپار نے بتایا کہ ہتیت میات تھواس گھر میں جولائی سے رہائش پذیر تھا۔ اس چھاپے کے دوران گروپ کے ایک ممبر کو گولی مار دی گئی جبکہ ہتیت میات تھو کو ایک گوریلا کے ساتھ پکڑ لئے جانے کے بعد گولی مار دی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بنا کسی پوچھ تاچھ کے صحافی کو گولی مارنا کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنا کام کر رہا تھا، وہ گوریلائوں کے ساتھ گھل مل کر خبریں حاصل کر رہا تھا۔اس سے قبل ۲۰۲۱ء میں فوجی حکومت مخالف احتجاج میں حصہ لینے کی پاداش میں اسے سات ماہ تک جیل میں رکھا گیا بعد میں عام معافی کے بعد اسے رہا کیا گیا تھا۔ کھن یوپارنے اس بات کو خارج کر دیا کہ ہتیت میات تھوگوریلا تنظیم کا رکن تھا۔
یہ بھی پڑھئے: پاکستان: ڈاکوؤں کے حملے میں بارہ سکیوریٹی اہلکار ہلاک، سات زخمی
ایک صحافی نے فوجی حکومت سے خطرے کے پیش نظر اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ہتیت میات تھو کے ہاتھوں کو باندھنے کے بعد گولی ماری گئی، اس کے ساتھ ایک اور گوریلا کو بھی ہلاک کر دیا گیا جبکہ تیسرا گوریلا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ کایاکھتو ریوولوشن فورس نےسوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرکے کہا کہ جمعرات کو دو صحافی اور گروپ کے دو ارکان کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ تیسرا رکن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ برمی زبان کے ایک صحافی نے بتایا کہ اس گھر میں ۷۰؍ سالہ بوڑھی خاتون سمیت ۷؍ لوگ موجود تھے، جن میں سے ۳؍لوگ بچ گئے جس میں بوڑھی عورت بھی شامل ہے۔ گھر میں موجود افراد نے چھاپہ کے دوران حفاظتی اہلکاروں پر کوئی جوابی فائرنگ نہیں کی۔ شوٹنگ کے بعد ان کی لاشوں کو حفاظتی اہلکاروں نے اپنے قبضے میں لے کر ان کا کریاکرم کردیا۔