۱۰؍ دن قبل بیوہ ہونےوالی شائستہ شیخ کے گھر میں شوہر کیلئے منعقدہ فاتحہ کے پروگرام میں گھس کر مہمانوں کو حراست میں لیا، ۲؍ جوان بیٹے بھی گرفتار،ا یک کی آنکھ پھوڑ دینے کا الزام۔
EPAPER
Updated: March 19, 2025, 9:34 AM IST | Nagpur
۱۰؍ دن قبل بیوہ ہونےوالی شائستہ شیخ کے گھر میں شوہر کیلئے منعقدہ فاتحہ کے پروگرام میں گھس کر مہمانوں کو حراست میں لیا، ۲؍ جوان بیٹے بھی گرفتار،ا یک کی آنکھ پھوڑ دینے کا الزام۔
پیر کی رات بھڑکنے والے تشدد اور ہنگامہ آرائی کے بعد شہر کے متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ دوسرے روز( منگل ۱۸؍ مارچ کو) متاثرہ علاقوں میں امن و امان برقرار ہے۔ تاہم ہنسا پوری اور بھالدار پورہ علاقوں کے مسلمانوں نے الزام لگایا ہے کہ محکمہ پولیس نے ظالمانہ رویہ برتا اوریک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے غیر انسانی تشدد کیا۔
’’پولیس نے گھر میں گھس کر بے قصور لوگوں کو گھسیٹ کر نکالا‘‘
اس ضمن میں شائستہ شیخ نامی خاتون نے بتایا کہ’’میرے شوہر کا ۱۰؍ روز قبل انتقال ہوا۔ پیر کو میرے گھر پر میت کے دسویں کی تقریب تھی، جس میں شرکت کے لئے میرے رشتہ دار بھی آئے ہوئے تھے اور گھر کے تمام نوجوان بھی موجود تھے۔ تاہم اس دوران تشدد پھوٹ پڑا اور اس کے بعد پولیس میرے گھر میں جبراً داخل ہوئی اور یہاں موجود نوجوانوں اور رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا۔‘‘ شائستہ نے مزید بتایا کہ’’ ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ گھر کے شیشے توڑے گئے اور تمام دروازے بھی توڑ دیئے گئے۔ تشدد ہوا جب ہم سب گھر میں ہی تھے اور گیلری سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ پولیس ہمارے محلہ میں آئی اور لاٹھیوں اور پتھروں سے موجود تمام کاروں کے شیشے توڑ دئیے اس کے بعد ہمارے گھر میں گھسی اور بغیر کسی قصور کے ۷؍ نوجوانوں کو گھر سے گھسیٹ کر لے گئے۔‘‘ شائستہ شیخ نے مزید بتایا کہ ’’پولیس کی اس زیادتی کی وجہ سے میرے بیٹے کی ایک آنکھ بھی پھوٹ گئی۔‘‘ اس کارروائی کے بعد شائستہ اور ان کی بیٹی نصرہ پولیس سے گرفتار کیے گئے نوجوانوں کے بارے میں استفسار کر رہی ہیں، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل رہا۔ انہیں اسپتال جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ دس دن پہلے اپنے شوہر کی موت اور اب بناء کوئی قصور کے دونوں بیٹوں کے گرفتار ہوجانے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔تشدداور پولیس کارروائی کے سبب مقامی افراد میں ڈراور خوف کا ماحول ہے۔
یہ بھی پڑھئے: چندوسی، سنبھل: مسجد اور ۳۴؍ مکانات پر بلڈوزر کارروائی کا اندیشہ
ناگپور تشدد کب کیا ہوا؟
ناگپور میں پیر ۱۷؍ مارچ کودوپہر ایک بجے وشو ہندو پریشد کے تقریباً ۳۰ سے ۳۵ ؍کارکن محل کے شیواجی چوک پر احتجاج کیلئے جمع ہوئے۔قریباً دوپہر دیڑھ بجے احتجاج کے دوران چوک میں اورنگ زیب کی تصویر اور ایک علامتی قبر بنائی گئی اور اسے آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔
دوپہر ۳ بجے : مسلمانوں نے اس پر اعتراض کیا اور احتجاج درج کرایا۔پولیس نے۳۰:۳؍ بجے حالات کو پرسکون کیا۔
شام۴؍ بجے : وشو ہندو پریشد کے کارکن محل چوک پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔اس دوران اورنگ زیب کی علامتی قبر پر سبز چادر جلانے کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔
شام ۷؍ بجے : وشو ہندو پریشد کے کارکنوں اور مسلم نوجوانوں نے چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمے کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ جس کے بعد مزید پولیس کی مدد طلب کی گئی۔
شام۳۰:۷؍ بجے، پولیس نے دونوں گروپوں کو احتجاج روکنے پر مجبور کیا۔رات۸؍بجے چٹنیس پارک چوک سے ایک گروپ آیا اور اس نے سبز چادر جلانے پر اعتراض کیا۔ جس کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔
رات ۳۰:۸؍بجے، دونوں مذہبی گروہوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے۔ جس سے تنازع بڑھ گیا۔ پولیس نے واقعہ کی سنگینی کو بھانپ کر دکانیں بند کروا دیں۔پولیس پر نامعلوم افراد کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا۔
دونوں گروپوں نے پتھراؤ شروع کر دیاکچھ نے جلاؤ ،گھیراؤ کیا۔ رات پونے ۹؍بجے فساد جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔
بھالدار پورہ اور چٹنیس پارک علاقے میں رات۹؍ بجے ایک گروپ نے جے سی بی اور گاڑیوں کو جلانا شروع کر دیا۔ولیس بھی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سڑکوں پر آگئی۔
رات۱۲؍ بجے ہنسا پوری اور گیتانجلی تھیٹر کے علاقے میں کچھ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی اور گھروں پر حملہ کیا گیا۔
رات بھر پولیس کا کومبنگ آپریشن جاری رہا اور تقریباً ۸۰؍ ملزمین کو حراست میں لے کر گنیش پیٹھ تھانے لایا گیا ہے۔