وارث نگر، چندوسی، اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں مقامی انتظامیہ نے ایک مسجد اور۳۴؍ گھروں کو غیر قانونی قبضے کے الزام میں مسمار کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ اقدام سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے متنازع سروے کے بعد سامنے آیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 18, 2025, 10:06 PM IST | Sambhal
وارث نگر، چندوسی، اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں مقامی انتظامیہ نے ایک مسجد اور۳۴؍ گھروں کو غیر قانونی قبضے کے الزام میں مسمار کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ اقدام سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے متنازع سروے کے بعد سامنے آیا ہے۔
وارث نگر، چندوسی، اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں مسلم برادری ایک نئی پریشانی کا شکار ہو گئی ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ نے ایک مسجد اور۳۴؍ گھروں کو غیر قانونی قبضے کے الزام میں مسمار کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ اقدام سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے متنازع سروے کے بعد سامنے آیا ہے جس نے مسلم عبادت گاہوں اور رہائشی علاقوں کے خلاف ممکنہ کارروائی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
انتظامیہ کا مؤقف
سرکاری ذرائع کے مطابق سنبھل کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجندر پینسیا اور دیگر اعلیٰ حکام نے حال ہی میں وارث نگر کی مسجد اور قریبی گھروں کا معائنہ کیا۔ اس دورے کے بعد اطلاعات موصول ہوئیں کہ انتظامیہ ان عمارتوں کی قانونی حیثیت کی جانچ کر رہی ہے اور ممکنہ طور پر انہدام کے احکامات جاری کئے جا سکتے ہیں۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ مسجد اور اس کے آس پاس کے مکانات چندوسی میں چھ بیگھہ میونسپل زمین پر بنائے گئے ہیں اور چونکہ یہ تعمیرات بغیر کسی باضابطہ اجازت کے کی گئی ہیں، اس لئے انہیں انسداد تجاوزات قوانین کے تحت مسمار کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اورنگ زیب کے مقبرےکیخلاف ریاست بھر میں بھگوا تنظیموں کا احتجاج
مقامی باشندوں کا ردعمل
تاہم، مقامی لوگوں نے ان دعوؤں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ مسجد کے امام نے انتظامیہ کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’’اگر زمین غیر قانونی تھی، تو حکام نے تعمیرات کی اجازت کیوں دی؟ اصل ذمہ داری ان افسران پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ان بستیوں کو منظوری دی، نہ کہ یہاں رہنے والے بے گناہ خاندانوں پر۔ ‘‘وارث نگر میں خوف اور غیر یقینی کی فضا قائم ہے، جہاں مسلم خاندان اچانک بے گھر ہونے کے امکان سے پریشان ہیں۔ کئی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طور پر خریدی تھیں اور انہیں کسی بھی زمین کے تنازعے کا علم نہیں تھا۔ ایک مقامی باشندے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہ زمین سستی تھی، اس لئے لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ خریدی۔ برسوں میں اس کی کئی بار خرید و فروخت ہوئی۔ اگر یہ سرکاری زمین تھی، تو حکام نے لین دین کو روکا کیوں نہیں ؟ اُس وقت انتظامیہ کہاں تھی؟‘‘یہی جذبات دوسرے افراد بھی ظاہر کر رہے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ مسلم املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رہائشیوں نے نشاندہی کی کہ پورے ضلع میں ایسی ہی تعمیرات موجود ہیں لیکن انہدامی کارروائیاں زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوں میں ہی کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: وزیراعظم مودی کے ہاتھوں ’رائے سینا ڈائیلاگ‘ کا افتتاح
قانونی ماہرین اور سماجی کارکنوں کا مؤقف
وارث نگر میں مجوزہ انہدام ایک ایسے رجحان کی پیروی کرتا دکھائی دیتا ہے جہاں مساجد اور مسلم بستیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قانونی ماہرین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائیاں سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور زمین کے قوانین کے امتیازی نفاذ کے خدشات کو جنم دیتی ہیں۔ اتر پردیش میں زمین کے تنازعات سے متعلق ایک قانونی ماہر نے کہا، ’’زمین کی ملکیت کے تنازعات پیچیدہ ہوتے ہیں اور انہیں قانونی ذرائع سے حل کیا جانا چاہئے، نہ کہ بلڈوزر کے ذریعے انصاف کیا جائے۔ بغیر کسی مناسب قانونی عمل کے انہدامات صرف سماجی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہیں۔ ‘‘متعدد کمیونٹی لیڈران اور کارکنوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور منصفانہ تحقیقات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بے ضابطگیاں موجود ہیں تو متبادل حل تلاش کئے جائیں، بجائے اس کے کہ اجتماعی انہدامات کے ذریعے خاندانوں کو بے گھر کر دیا جائے۔ ایک مقامی مسلم تنظیم کے سینئر رکن نے کہا، ’’ہم عدلیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کرے اور انصاف کو یقینی بنائے۔ گھروں اور عبادت گاہوں کو بغیر کسی شفاف قانونی عمل کے مسمار کرنا ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: بہار میں کانگریس سرگرم، کنہیا کی قیادت میں نئی یاترا کا آغاز
سیاسی اور سماجی ردعمل
جیسے جیسے کشیدگی بڑھ رہی ہے، سیاسی اور سماجی تنظیمیں بھی اس معاملے پر توجہ دینے لگی ہیں۔ اگر حکام نے انہدام کی کارروائی آگے بڑھائی تو اس سے بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا ہو سکتی ہے اور متاثرہ برادری مزید بدظن ہو سکتی ہے۔
انتظامیہ کا موقف
ابھی تک انتظامیہ نے وارث نگر کے انہدام کے بارے میں کوئی تفصیلی وضاحت جاری نہیں کی ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجندر پینسیا نے کوئی براہ راست بیان نہیں دیا لیکن ذرائع کے مطابق حتمی فیصلہ مزید غور و خوض کے بعد کیا جائے گا۔ فی الحال، وارث نگر کے رہائشی بے یقینی کے عالم میں ہیں، یہ نہیں جانتے کہ آنے والے دن کیا لے کر آئیں گے۔ جیسے جیسے بلڈوزر حرکت میں آنے کیلئے تیار ہوتے جا رہے ہیں، مسلم برادری ایک بار پھر اپنے حقوق کے تحفظ اور اپنے گھروں کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔