امریکہ میں مقیم شامیوں نے بھی اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر جمع ہو کر تقریب میں شرکت کی اور شامی پرچم لہرا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ شام کے وزیر خارجہ نے حمایت کیلئے جمع ہونے والے شامی شہریوں سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کی۔
EPAPER
Updated: April 26, 2025, 10:06 PM IST | Inquilab News Network | New York
امریکہ میں مقیم شامیوں نے بھی اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر جمع ہو کر تقریب میں شرکت کی اور شامی پرچم لہرا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ شام کے وزیر خارجہ نے حمایت کیلئے جمع ہونے والے شامی شہریوں سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کی۔
اقوام متحدہ کے نیویارک، امریکہ میں واقع مرکزی دفتر میں جمعہ کی صبح، ملک شام کا نیا پرچم لہرایا گیا۔ اس موقع پر دیگر رکن ممالک کے پرچم بھی لہرائے گئے۔ شامی انقلابی پرچم اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں ۱۹۳ رکن ممالک اور دو ناظر ممالک کے پرچموں کے ساتھ تالیوں اور نعروں کے درمیان لہرایا گیا۔ اس تقریب میں شام کے وزیر خارجہ اسعد الشعیبانی، اقوام متحدہ کے شام کیلئے خصوصی ایلچی گیر او پیڈرسن، اقوام متحدہ کے متعدد مستقل نمائندے اور امریکہ میں شامی سول سوسائٹی کے اراکین شریک ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کے مظلوموں کو جبراً شام منتقل کرنے کی سازش کا انکشاف
تقریب کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الشعیبانی نے کہا، "یہ پوری دنیا کیلئے، دنیا بھر کے تمام آزاد لوگوں کیلئے ایک پیغام ہے۔ یہ لمحہ صرف شامیوں کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے اہمیت رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ شام میں عوام کی مرضی غالب آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ (اقوام متحدہ میں لہراتا شامی پرچم) ہمارے عوام کی فتح کا تاج ہے۔
امریکہ میں مقیم شامیوں نے بھی اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر جمع ہو کر تقریب میں شرکت کی اور شامی پرچم لہرا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ الشعیبانی نے حمایت کیلئے اس موقع پر جمع ہونے والے شامی شہریوں سے ملاقات کی اور ان سے گفتگو کی۔
یہ بھی پڑھئے: یمن :حوثیوں نے۲۰۰؍ ملین ڈالر سے زائد مالیت کے امریکی ڈرون مار گرائے ہیں
واضح رہے کہ شام کے نئے پرچم کو "انقلابی پرچم" کہا جاتا ہے۔ اسے ۶۱ برسوں پرمحیط بعث دور حکومت کے خاتمے کے بعد بیرون ملک موجود مشنز کے ذریعے اپنایا گیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران حزب اختلاف نے اسی پرچم کا استعمال کیا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال، ۸ دسمبر کو حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے باغیوں نے دمشق پر قبضہ کرلیا تھا اور آمر صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جس کے بعد اسد خاندان کی ۵ دہائی طویل حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اپنے والد حافظ الاسد، جو ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۰ء تقریباً تین دہائیوں تک ملک کے صدر رہے، کی وفات کے بعد بشار الاسد صدارتی کرسی سنبھالی اور ۲۴ سال تک شام پر حکومت کی۔ معزولی کے بعد فی الحال بشار الاسد اپنی اہلیہ اسماء اسد اور خاندان کے ساتھ روس میں پناہ گزین ہیں۔