پریس کاؤنسل آف انڈیانے جمعہ کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ نیوز اسوسی ایشن اورڈجیٹل رائٹس آرگنائزیشنزنے ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ نئے پاس کردہ قوانین واپس لے لے جن کا مقصد آزادی صحافت کو روکنا ہے۔
EPAPER
Updated: June 15, 2024, 2:38 PM IST | New Delhi
پریس کاؤنسل آف انڈیانے جمعہ کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ نیوز اسوسی ایشن اورڈجیٹل رائٹس آرگنائزیشنزنے ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ نئے پاس کردہ قوانین واپس لے لے جن کا مقصد آزادی صحافت کو روکنا ہے۔
پریس کاؤنسل آف انڈیانے جمعہ کو اپنے بیان میں کہا کہ نیوز اسوسی ایشنز اور ڈجیٹل رائٹس آرگنائزیشنز نے ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ منظور کئے گئے ایسے نئے قوانین واپس لے جن کا مقصد آزادیٔ صحافت کو روکنا ہے۔ واضح رہے کہ نیوز اداروں نے یہ قرارداد ۲۸؍ مئی کو منظور کی تھی۔ وہ قوانین جنہیں اس قرارداد میں شامل کیا گیا ہے، ان میں براڈکاسٹ سروس ریگولیشن بل، ڈجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ، دی پریس اینڈ رجسٹریشن آف پریوڈیکلز ایکٹ اینڈ دی انفارمیشن ٹیکنالوجی امینڈمینٹ رولز شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’مودی سرکار نیٖٹ گھوٹالہ چھپانے کی کوشش کررہی ہے‘
۲۸؍ مئی کو جب یہ قرار داد منظور کی گئی تھی تومیٹنگ میں متعدد نیوز اسوسی ایشنز اورڈجیٹل رائٹس آرگنائزیشن موجود تھے۔ ان اداروں میں پریس کلب آف انڈیا، دی انڈین جرنسلسٹ یونین، دی دہلی یونین آف جرنلسٹ، ڈی جی آئی جی آئی پی یو بی نیوز فاؤنڈیشن، دی انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن، دی ورکنگ نیوز کیمرہ مین اسوسی ایشن ، دی انڈین ویمن پریس کارپس، دی کوگیٹو میڈیا فاؤنڈیشن، دی انڈین اور ممبئی ، کولکاتا، تروننت پورم اور چنڈی گڑھ کے پریس کلب شامل ہیں۔ قرارداد کے مطابق براڈکاسٹ سروس ریگولیشن بل او ٹی ٹی اور ڈجیٹل مواد پر نگرانی کو بڑھا رہاہے۔ اس قانون نے ۱۹۹۵ء کے ٹی وی نیٹ ورکس (ریگولیشن) ایکٹ کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ممبئی کے تمام وارڈوں میں لگی ہورڈنگز کے سروے کی ہدایت
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس میں ضروری رجسٹریشن، ذاتی اصولوں کیلئے مواد کی تشخیص کرنے والی کمیٹیاں اور تین درجے پر مبنی ریگولیٹری نظام تجویز کیا گیا ہے۔ قرارداد شہریوں کے جاننے کے حق پر ان قوانین کے ذریعے کنٹرول اور ریگولیشن، اور’’غیر معقول پابندیوں‘‘ کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتی ہے۔ قرارداد کے مطابق ڈجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ رائٹ ٹو انفارمیشن کے ’’اہم سیکشن کو مختصر کر دیتا ہےجو صحافیوں کیلئےحکومت کے طریقہ کار اور عوامی خدمتگاروں کے بارے میں جاننے کیلئے اہم کردار اداکرتا ہے۔ نیوز اداروں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈجیٹل پرسنل ڈیٹا ایکٹ میں موجود اس طرح کی تمام دفعات کو یا تو ختم کر دے یا اس میں ترمیم کرے جن کا مقصد رائٹ ٹو انفارمیشن کو کمزور کرنا ہے۔
پریس کاؤنسل آف انڈیا نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈجیٹل میڈیا اور براڈکاسٹ کی شمولیت کیلئے اسے میڈیا کاؤنسل سے تبدیل کر دے۔ نیوز ادارے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’میڈیا کاؤنسل کو میڈیا کے بدلتے منظر نامے کی وجہ سے آنےوالے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے مضبوط بنانا چاہئے۔ یہ صحافیوں، مرکزی حکومت کے نمائندوں، مالکان اور حکومت پر مبنی ہے۔ اسے میڈیا اداروں ، پبلی کیشنز، براڈکاسٹ اور ڈجیٹل طریقہ سے شائع کردہ مواد پر سختیاں برتننے کیلئے خوداختیار بنایا جانا اہم ہے۔