آئی آئی ایس سی بنگلور کے پروفیسر شریواستو کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے صرف آئی پی ایل سے ہونے والے منافع پر ۴۰ فیصد ٹیکس لگایا جائے تو ۳ برسوں میں تقریباً ۱۵ ہزار کروڑ روپے جمع کئے جا سکتے ہیں۔ یہ رقم ۱۰ نئے آئی آئی ٹی کالجز بنانے کیلئے کافی ہے۔
گزشتہ دنوں بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (آئی آئی ایس سی) کے ایک پروفیسر نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں نشاندہی کی کہ دنیا کے سب سے امیر کرکٹ بورڈ، بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) نے گزشتہ تین برسوں میں تقریباً ۱۵ ہزار کروڑ روپے کی کمائی کی ہے۔ پروفیسر نے ہندوستانی کرکٹ بورڈ کا موازنہ تحقیقی اداروں سے کیا جنہیں حکومت کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے لیکن بی سی سی آئی اس کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ تحقیقی اداروں پر عائد ٹیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر نے کہا کہ ہندوستان میں "تفریح کو سبسڈی (ٹیکس میں چھوٹ) دی جا رہی ہے۔" پروفیسر کے اس مشاہدے سے سوشل میڈیا صارفین نے بھی اتفاق کیا جس کے بعد بی سی سی آئی کو انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کے مطالبات زور پکڑنے لگے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: چینی کمپنیوں کو ہندوستان کا سہارا
آئی آئی ایس سی بنگلور کے پروفیسر مینک شریواستو نے لنکڈاِن پر لکھا، "اگر بی سی سی آئی کے صرف آئی پی ایل سے ہونے والے منافع پر ۴۰ فیصد ٹیکس لگایا جائے تو ۳ برسوں میں تقریباً ۱۵ ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم جمع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم ۱۰ نئے آئی آئی ٹی کالجز بنانے یا قومی ٹکنالوجی اختراعی فنڈ کیلئے کافی ہے۔ فرنچائز سے ہونے والے منافع (۸۰۰ سے ۱۲۰۰ کروڑ روپے سالانہ) کو شامل کریں تو ہر سال مزید ۳۲۰ سے ۴۸۰ کروڑ روپے جمع کئے جا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر، صرف آئی پی ایل سے ہر سال تقریباً ۶ ہزار کروڑ روپے تحقیقی منصوبوں کیلئے مختص کئے جا سکتے ہیں۔"
تاہم، پروفیسر شریواستو نے مزید کہا کہ "ٹیکس چھوٹ اور ریاستی سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں" کی فہرست میں صرف کرکٹ بورڈ اکیلا نہیں ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ بالی ووڈ کے کئی پروڈکشنز کو ایسی چھوٹ حاصل ہے اور بہت سے مذہبی ٹرسٹ، ٹیکس فری رہتے ہوئے "وسیع تجارتی سلطنتوں" کے مالک بن گئے ہیں۔ نئی اسپورٹس لیگز کو بھی اسٹارٹ اپ ٹیکس ہولی ڈے دیا گیا ہے۔ پروفیسر نے مزید کہا، "اگر ان شعبوں کے ایک حصے پر بھی معمولی ٹیکس لگایا جائے تو ہزاروں کروڑ روپے، ملک کے سائنسی انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے فنڈز فراہم کر سکتے ہیں۔ ہندوستان میں پیسے کی کمی نہیں ہے۔ ہندوستانیوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ جو چیز ہمارے پاس نہیں ہے، وہ مستقبل میں سرمایہ کاری کا وژن ہے۔ آج فوری منافع کیلئے تیار کاروباریوں کا غلبہ ہے۔ سچے کاروباری جو صبر کے ساتھ ایکو سسٹم بنانے کے خواہشمند ہو، اب نایاب ہوچکے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے: مرکز کی ۲۲؍ہزارکروڑ کی الیکٹرانکس اسکیم کا آغاز
بی سی سی آئی پر ٹیکس کیوں نہیں لگتا؟
ہندوستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ نے گزشتہ تین برسوں میں تقریباً ۱۵ ہزار کروڑ روپے کمائے ہیں جس کا بڑا حصہ مقبول کرکٹ لیگ آئی پی ایل سیگمنٹ سے ہونے والی آمدنی کا ہوتا ہے۔ بی سی سی آئی کو کوئی انکم ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہندوستانی قانون کے تحت ایک رفاہی تنظیم کے طور پر رجسٹرڈ ہے اور اس کا بنیادی مقصد کھیل کو فروغ اور ترقی دینا ہے۔ آئی پی ایل سے منسلک تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دینے والے میمورنڈم متعارف ہونے کے بعد بورڈ کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھے جانے پر مزید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سال فروری کے وسط میں بمبئی ہائی کورٹ نے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ایک ٹیکس ایڈوائزری کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ بی سی سی آئی کے بنیادی مقاصد اس کی تجارتی سرگرمیوں کی طرف منتقلی سے تبدیل ہو گئے ہیں۔