۹۲؍ سالہ جاپانی ترومی تاناکا کی تنظیم کو امسال جوہری ہتھیاروں کا استعال ترک کرنے کی ان کی کوششوں کے عوض امن کا نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس دوران انہوں نے اپنی تقریر میں ان ہولناکیوں کو یاد کیا ، جب جاپان کے شہر ناگا ساکی پر جوہری بم سے حملہ کیا گیا تھا۔
جوہری بم کے حملے میں زندہ بچ جانے والے ترومی تاناکا تقریر کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس
ایک ۹۲؍ سالہ جاپانی شخص جو ناگا ساکی پر امریکی جوہری بم حملے میں زندہ بچ گیا تھا، اس سال امن کا نوبل انعام حاصل کرتے وقت تقریر میں ان ہولناکیوں کو یاد کیا، جب ۱۹۴۵ء میں جاپان کے شہر پر جوہری بم کا حملہ کیا گیا تھا۔یہ نوبل انعام ان کی تنظیم کو جوہری ہتھیاروں کا استعمال ترک کرنے کیلئے ان کی کوششوں کے عوض تفویض کیا گیا۔
واضح رہے کہ جاپان میں جوہری بم حملے میں ۲؍ لاکھ ۱۰؍ ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے، اس کے علاوہ تابکاری سے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ان دو جوہری بم حملوں کے بعد جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی ہار تسلیم کرکے جنگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ترومی تاناکانے اوسلو کے سٹی ہال میں تقریر کی جس میں ناروے کا شاہی خاندان بھی بطور سامع موجود تھا کہا کہ’’ ایٹمی سپر پاور روس نے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے، اور اسرائیل کی کابینہ کے ایک رکن نے، فلسطین میں غزہ پر اپنے بے لگام حملوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی بات کی ہے۔میں بے حد غمگین ہو ں کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال ترک کرنے کی کوششیں کمزور پڑنے لگیں ہیں۔‘‘یہ وہ تشویش ہے جس نے ناروے کی نوبل کمیٹی کو اس سال جاپانی تنظیم کو امن کا نوبل انعام دینے پر مجبور کیا۔ حالانکہ اس تنظیم نے ماضی میں جوہری عدم پھیلاؤ کے دیگر کاوشوں کیلئے اعزاز حاصل کئے ۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا اپنی فوج کو شام میں ’’مضبوط دفاعی زون‘‘ بنانے کا حکم
نوبل کمیٹی کے سربراہ جورجن واٹن فریڈنس نے انعام یافتہ افراد کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جوہری خطرات بڑھنے کے ساتھ ان کی گواہی سے نصیحت حاصل کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے نو ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا میں سے کوئی بھی فی الحال جوہری تخفیف اسلحہ اور ہتھیاروں کے کنٹرول میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس، وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید اور مہلک ترین بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’ ناروے کی نوبل کمیٹی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے والی پانچ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں، امریکہ، روس، چین، فرانس اور برطانیہ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لیں، اور دوسروں کو اس کی توثیق کرنی چاہیے۔ فریڈنس نے کہا کہ ’’یہ یقین کرنا بے ہودہ بات ہے کہ ہماری تہذیب ایک ایسے عالمی نظام میں زندہ رہ سکتی ہے جس میں عالمی سلامتی کا انحصار جوہری ہتھیاروں پر ہو۔دنیا کا مطلب قید خانہ نہیں ہے جس میں ہم اجتماعی فنا کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: دو فٹبال کھلاڑی بھائیوں کی موت کے بعد فٹبال کھلاڑی کی اموات ۳۵۳؍ ہوگئی
تاناکا نے اپنی تقریر میں ہیروشیما پر پہلا بم گرائے جانے کے تین دن بعد ۹؍اگست ۱۹۴۵ءکو ناگاساکی پر ہونے والے حملے کو بیان کیا۔انہوں نے بمبار طیارے کی گونجتی ہوئی آواز کو یاد کیا جس کے بعد ایک سفید روشنی کی لہر اٹھی۔اپنی تقریر میں انہوں نے بتایا کہ پل بھر میں شہر کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ۔ تین دن بعد انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو تلاش کیا، جن میں سے اکثر بری طرح زخمی ہوئے یا جھلس گئے تھے، انہیں ایک خالہ کی جلی ہوئی لاش ملی، جبکہ دوسری خالہ بری طرح جھلسی ہوئی ان کے پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکی تھیں، خالہ کےپوتے کی لاش نظر آئی، مجموعی طور پر خاندان کے پانچ افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔تاناکا نے مزید کہا کہ’’ جوہری حملوں میں زندہ بچ جانے والوں سے دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہئے، اور انسانیت کی بقا ء کیلئے جوہری ہتھیاروں کا استعمال ترک کر دینا چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ یہ یقین کہ جوہری ہتھیار اور انسانیت ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، یہ عقیدہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں اور ان کے اتحادیوں کے عوام میں اس قدرپیدا ہو جائے گا اور ان کی حکومتوں کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کا باعث ہوگا۔‘‘