انڈین میڈیکل اسوسی ایشن ( آئی ایم اے ) کے ایک سروے کے مطابق مغربی بنگال میں ہوئے حالیہ جنسی زیادتی اور قتل کے واقع کے بعد خواتین ڈاکٹررات کی شفٹ میں خوف محسوس کرتی ہیں، اس کے علاوہ کئی ڈاکٹروں نے اپنی حفاظت کیلئے ہتھیار بھی رکھنا شروع کر دیاہے، ڈاکٹروں نے کچھ مشورے بھی دئیے ہیں جن پر عمل کرکے ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
انڈین میڈیکل اسوسی ایشن ( آئی ایم اے ) کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین ڈاکٹروں کی ایک تہائی تعداد رات کی شفٹ کے دوران خوف محسوس کر تی ہیں، حتیٰ کہ ان میں سے کئی اپنی حفاظت کی خاطر ہتھیار ساتھ رکھنے پر سنجیدگی سے غور کر ہی ہیں۔ان ڈاکٹروں کی کل تعداد میں غیر محفوظ ( ۱ء ۲۴؍ فیصد) انتہائی غیر محفوظ ( ۴ء۱۱؍ فیصد) ہے۔ ان میں غیر محفوظ تصور کرنے والوں میں خواتین کی اکثریت ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: ناروے کی امدادی کارکنان پر حملے کی مذمت، ناقابل قبول قرار دیا
آئی ایم اے کے مطابق ۳۸۸۵؍ افراد کی رائے پر مشتمل یہ سروے اس عنوان کے تحت کیا جانے والا سب سے بڑا سروے ہے۔ کیرالا کے آئی ایم اے کے چیر مین راجیو جیادیون اور ان کی ٹیم کا یہ سروے جون ۲۰۲۴ء کے آئی ایم اے کے شمارے میں شائع ہوگا۔ پی ٹی ائی کےمطابق سروے سے پتہ چلا کے ۴۵؍ فیصد ڈاکٹروں کو ڈیوٹی روم فراہم نہیں کئے جاتے ، یا ان میں تالا نہیں ہوتا، یا ان میں باتھ روم کی سہولت نہیں ہوتی، یا تنہائی میسر نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر انہیں ان کی ضرورت پڑی تو انہیں اتنی رات میں باہر نکلنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ۵۳؍ فیصدڈیوٹی روم وارڈ، حادثاتی محکمہ سے دور واقع ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: مریکہ: مسلمانوں کو سب سے زیادہ تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے: بروکنگز
سروے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کئی ڈاکٹروں نے ہتھیار ساتھ رکھنا شروع کر دیا ہے ، ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اپنے پرس میں مڑنے والا چاقو اور مرچ کا اسپرے رکھتی ہے، کیونکہ اس کا ڈیوٹی روم سنسان راہداری کے دوسرے سرے پر واقع ہے۔ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ حادثاتی محکمہ میں اسے اکثر زبانی یا جسمانی طور ہراساں کیا جاتا ہے۔جس کی وجہ نشہکے زیر اثر آنے والے افراد ہیں،اس کے علاوہ حادثاتی روم میں بھیڑ کے وقت انہیں غلط طریقے سے مس کیا جاتا ہے۔ حالات چھوٹے اسپتالوں میں بد ترین ہو جاتے ہیں اس کی وجہ اسٹاف کا کم ہونا ،اور حفاظتی عملہ کا نا ہونا ہے۔ متعدد ڈاکٹروں نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ ان کی شکایات پر انتظامیہ کے ذریعے دھیان نہیں دیا جاتا۔
یہ بھی پڑھئے: آندھراپردیش: انجینئرنگ کالج کے لڑکیوں کے ہوسٹل میں خفیہ کیمرہ، پولیس تفتیش شروع
یہ سروے ۲۲؍ ریاستوں میں کیا گیا ، اس میں ۸۵؍ فیصد ڈاکٹروں کی عمر ۳۵؍ سال سے کم ہے، ان میں سے یاتو وہ انٹرن ہیں یا زیر تربیت ہیں۔ایسے ڈاکٹر جن کی عمر ۲۰؍ سے ۳۰؍ سال کے درمیان ہے ان میں حفاظت کا احساس نسبتاً کم ہے جوپوسٹ گریجویٹ ہیں۔اس سروے میں ڈاکٹروں نے کچھ مشورے بھی دئے ہیں۔جن کی مدد سے حفاظت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔اس میں تربیت یافتہ سکورٹی اہلکار کی تعیناتی، سی سی ٹی وی کیمرہ کی تنصیب، مناسب روشنی کا انتظام، غیر متعلقہ افراد کی تعداد میں کمی، الارم نظام کی تنصیب، بنیادی سہولت کی فراہمی مثلاً ڈیوٹی روم میں تالے کی سہولت وغیرہ۔