Inquilab Logo Happiest Places to Work

پہلگام حملےکے تعلق سے سوشل میڈیا تبصروں کی پاداش میں ۱۹؍ افراد گرفتار

Updated: April 27, 2025, 9:01 PM IST | New Delhi

کشمیر کے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے تعلق سے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے پر ۱۹؍ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، حکومت کے روائتی بیانیہ کے خلاف تبصرہ کرنے کی پاداش میں گرفتار ہونے والوں میں آ سام کے ایم ایل اے، طالب علم، سبکدوش اساتذہ اور وکیل بھی شامل ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

حکومت کے روایتی بیانیے کو چیلنج کرنے والی آوازوں کو دبانے اور تنقیدی رائے کو کچلنے کی ایک اور کوشش کے طور پر، آسام، میگھالیہ اور تریپورہ کی ریاستی حکومتوں نے کم از کم۱۹؍ افراد کو حال ہی میں جنوبی کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے پر تنقیدی تبصروں کی وجہ سے گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں طلباء، ریٹائرڈ اساتذہ، ایک وکیل، ایک صحافی اور ایک ریاستی قانون ساز (ایم ایل اے) شامل ہیں۔یہ گرفتاریاں زیادہ تر سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر کی گئی ہیں، جو حکومت کی جانب سے آزادی اظہار اور اختلافی آوازوں کے تحفظ کے عزم پر سوال اٹھاتی ہیں۔ یہ کارروائی ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ لگتی ہے جس کا مقصد تنقیدی رائے کو دبانا اور حکومتی بیانیے کے خلاف بولنے والوں کو خاموش کرنا ہے۔  

یہ بھی پڑھئے: ’دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں‘ اس بیان پرسیاحت محکمہ نے انفلوئنسر سے تعلق ختم کیا

میڈیا رپورٹس کے مطابق، صرف آسام میں۱۴؍ گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ پہلی گرفتاری جمعرات کو ہوئی جب آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے ایم ایل اے امین الاسلام کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ۲۰۱۹ء کاپلوامہ حملہ اور منگل کو پہلگام میں ہونے والا حملہ ’’حکومت کی سازش‘‘تھا۔ انہیں جمعہ کو چار دن کی پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ آسام میں جمعہ تک دیگر گرفتاریوں میں حیلاکنڈی کے جابر حسین، سلچر کے اے کے بہاء الدین اور جاوید مظفر، موریگاؤں کے مہار میا اور سیواساگر کے ساحل علی شامل ہیں۔ کریم گنج کے مصطفی احمد المعروف ساحل کو فیس بک پر ایک نازیبا پوسٹ کی وجہ سے جمعہ کی رات گرفتار کیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق، حسین ایک صحافی ہیں، بہاء الدین سلچر کی آسام یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں، اور مظفر ایک وکیل ہیں۔  
سنیچر کو، پولیس نے بشواناتھ سے۲۵؍ سالہ ظریف علی اور ایک طلبہ تنظیم کے ضلعی سکریٹری انیل بنیا کو گرفتار کیا۔ حیلاکنڈی میں سومن مظفر المعروف بلبل عالم مظفر، ناگاؤں میں مشعود اظہر، اور گوہاٹی کے قریب ہاجو سے ایک اور شخص کو ’’ آن لائن ہند مخالف تبصرہ‘‘ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ کاچھر ضلعی پولیس نے دو اور افراد کو سوشل میڈیا پر ’’پاکستان کی حمایت میں مواد‘‘ پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ تریپورہ سے اب تک چار گرفتاریاں،اور میگھالیہ سے ایک گرفتاری ہوئی ہے۔ ان کارکنوں پر بغاوت اور دیگر الزامات, حکومت کی مخالفین کو خاموش کرنے کی روش کی ایک اور مثال ہیں۔ یہ گرفتاریاں حکام کے اختلاف کو دبانے اوراظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے رجحان کے بارے میں تشویش پیدا کرتی ہیں۔ حکومت اپنے خیالات کی وجہ سے افراد کو نشانہ بنا کر خوف اور دہشت کی فضا پیدا کر رہی ہے، جہاں لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے گھبراتے ہیں۔  

یہ بھی پڑھئے: جے این یو میں فلسطینی پرچم نذر آتش کرنے پر اے بی وی پی سخت تنقید کا نشانہ

آسام کے وزیر اعلی ہمنت بسوا شرما نے حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ ’’ہند مخالف‘‘ تبصرے کرنے والوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، نقادوں کا کہنا ہے کہ یہ رویہ طاقت کا غلط استعمال ہے اور جمہوری اقدارکیلئے  خطرہ ہے۔ جیسے جیسے حکومت مخالف آوازوں کو کچلنے پر تُلی ہوئی ہے، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ آزادی اظہار کا تحفظ اور کھلے مکالمے کی ثقافت کو فروغ دینا کتنا اہم ہے۔ آسام، میگھالیہ اور تریپورہ میں ہونے والی گرفتاریاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہمیں اپنے جمہوری حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کیلئے  چوکنا رہنا ہوگا۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK