Updated: September 03, 2024, 11:26 AM IST
| Gaza
فلسطین میں جاری جنگ کے نتیجے میں تقریباً چھ لاکھ اسکولی بچے نفسیاتی صدمے سے دوچار ہیں، اسرائیلی بمباری میں غزہ کے ۷۰؍ فیصد اسکول تباہ ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ تمام اسکولوں میں بے گھر فلسطینیوں نے پناہ لی ہے جس کے سبب ان عمارتوں کو بطور اسکول استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
غزہ تباہی کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این
فلسطینی امدادی ادارے کے مطابق اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں ۶؍ لاکھ فلسطینی بچے نفسیاتی صدمے سے دوچار اور ملبے پر رہنے کو مجبورہیں۔ ادارے کے سربراہ فلپ لزارینی نے ایکس پر شائع ایک بیان میں کہا کہ غزہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے لڑکے اور لڑکیاں دوبارہ اسکول جانے لگے ہیں۔ان میں سے نصف تعداد فلسطینی امدادی ادارے کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی تھی۔انہوں نے متنبہ کیا کہ بچے جتنے زیادہ دنوں تک اسکول سے دور ہیں گےنسل کے خاتمے،رنجیدگی اور انتہا پسند خیالات میں اضافہ کا سبب ہوگا۔ ان کے مطابق غزہ میں ادارے کے ذریعے چلائے جا رہے ۷۰؍ فیصد اسکول تباہ ہو چکے ہیں، جبکہ زیادہ تر اسکول ہزاروں بے گھر افراد کیلئے پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکے ہیں،فی الحال انہیں بطور اسکول استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھئے: یرغمالوں کی رہائی اور جنگ بندی کے معاہدے میں رکاوٹ کیلئے نتین یاہو ذمہ دار: حماس
جبکہ اسرائیل کی جانب سے مسلسل سفاکانہ کارروائی جاری ہے انہیں ڈر ہے کہ کہیں دیگر جنگ زدہ علاقوں کی طرح یہ بچے بھی استحصال کا شکار نہ ہو جائیں۔ لزارینی نے عالمی برادری سے اسے روکنے کیلئے اقدامات کرنے کی اپیل کی۔ حالانکہ قطر، مصر اور امریکہ ایک معاہدے کی کو شش کر رہے ہیں تاکہ خطے میں جنگ بندی اور یرغمالوں اور قیدیوں کا تبادلہ عمل میں لایا جا سکے،لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوکے سخت رویہ کے سبب یہ امن کی کوشش تعطل کا شکار ہے۔حالانکہ لزارینی کا کہنا ہے کہ جنگ بندی دونوں فریق کیلئے سود مند ہوگی۔ جہاں ایک طرف فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوگی، وہیں دوسری جانب اسرائیلی یرغمال بھی رہا ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھئے: شملہ، ہماچل پردیش: مسجد کے انہدام کا مطالبہ کرتے ہوئے مسجد کے باہر ہی مظاہرہ
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بدترین ناکہ بندی کے سبب خطے میں پینے کے صاف پانی، غذا اور طبی سہولتوں کی ترسیل مشکل ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا بھی الزام ہے۔