Updated: March 07, 2025, 10:05 PM IST
| Gaza
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حماس پر شدید تنقید کے بعد فلسطینیوں نے اسرائیل کی جانب سے۶۰۰؍ سے زائد لاشوں کو روکے رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ٹرمپ نے حماس کے اراکین کو’’ بیمار‘‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں اور ہلاک شدگان کی لاشوں کو واپس کریں، ورنہ تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حماس پر شدید تنقید کے بعد فلسطینیوں نے اسرائیل کی جانب سے۶۰۰؍ سے زائد لاشوں کو روکے رکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ٹرمپ نے حماس کے اراکین کو بیمار ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں اور ہلاک شدگان کی لاشوں کو واپس کریں، ورنہ تباہی کا سامنا کریں۔ تاہم ٹرمپ کے اس بیان کے خلاف فلسطین میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ جن کا کہنا ہے کہ اسرائیل برسوں سے اس سے بھی بدتر کام کر رہا ہے۔ اسرائیل سیکڑوں فلسطینی لاشوں کو مخصوص مقامات پر روکے ہوئےہے۔ کچھ لاشیں پچاس سال سے بھی زیادہ عرصے سے،اہل خانہ کے سپرد نہیں کیں جس کی وجہ سے خاندان اپنے پیاروں کی واپسی کے انتظار میں جذباتی اذیت سے گزر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کی غزہ کے شہریوں کو دوبارہ دھمکی، یرغمال رہا نہیں ہوئے تو سبھی کو ختم کردیا جائے گا
خبروں کے مطابق اسرائیل نے ۶۶۵؍ لاشوں کو روک رکھا ہے، جن میں ۵۹؍ بچوں کی لاشیں بھی شامل ہیں۔مصطفیٰ اراکات اس درد کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے بیٹے احمد کو۲۰۲۰ء میں اسرائیلی فوجیوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ تین سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود، ان کی لاش اب بھی روک کر رکھی گئی ہے۔ اراکات نے اے پی کو بتایا، "انہیں میرے بیٹے کی لاش روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ میرا حق ہے کہ میں اسے مناسب طریقے سے دفناؤں۔اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی لاشوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ حملوں کو روکنے کیلئے یا مستقبل کے مذاکرات میں تبادلےکیلئے۔۲۰۲۰ء میں، اسرائیلی حکومت نے اس پالیسی کو مزید وسعت دی، اور فیصلہ کیا کہ وہ تمام فلسطینی لاشوں کو روکیں گے جو مبینہ حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں، نہ کہ صرف وہ جو حماس سے منسلک ہیں۔فلسطینی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پالیسی کو اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے عمر شاکر کا کہنا ہے کہ’’ اسرائیل نےلاشوں کو سودے بازی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ‘‘ یروشلم لیگل ایڈ اینڈ ہیومن رائٹس سینٹر کے اندازے کے مطابق، کم از کم۸۲؍ فلسطینی لاشیں خفیہ فوجی قبرستانوں میں دفن ہیں، جن کی قبروں کو صرف نمبروں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ خاندانوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان کے پیاروں کی لاشیں کہاں رکھی گئی ہیں۔ وہ دہائیوں تک انتظار کرتے ہیں، اس امید پر کہ کوئی معاہدہ ہوگا جو انہیں واپس لے آئے گا۔کئی لوگوں کیلئے، یہ انتظار ایک عذاب بن گیا ہے۔ کچھ لاشیں۱۹۷۰ء کی دہائی سے روک کر رکھی گئی ہیں۔ کئی والدین اپنے بچوں کو دفنائے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے، حماس نہیں: فلسطینی حکام
ایسا ہی ایک قبرستان، بنات یعقوب برج قبرستان، فلسطینی، لبنانی اور شامی سرحدوں کے سنگم پر ایک انتہائی فوجی زون میں واقع ہے۔ یہاں سیکڑوں فلسطینی ہلاک شدگان کی لاشیں دفن ہیں، جن کی آخری آرام گاہیں سیکیورٹی کی متعدد تہوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں، اور غمزدہ خاندانوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سینئر ڈائریکٹر برائے تحقیق، وکالت، پالیسی اور مہمات ایریکا گویرا روزاس کا کہنا ہے کہ لاشوں کے ساتھ کبھی بھی جنگ کے میدان جیسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔ تنازعے کے تمام فریقوں کی یہ واضح ذمہ داری ہے کہ وہ زندہ اور مردہ دونوں کی حرمت کو برقرار رکھیں، بشمول اس بات کو یقینی بنانا کہ لاشوں کو مناسب طریقے سے شناخت کیا جائے اورحرمت کے ساتھ واپس کیا جائے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کے الفاظ نے فلسطینیوں کی مایوسی کو اور گہرا کر دیا ہے۔ جب وہ حماس کو لاشوں کو روکنے پر ’’بیمار ‘‘کہتے ہیں، تو فلسطینی پوچھتے ہیں: پھر اسرائیل کو کیا کہا جائے؟