اسرائیل میں اذان پر پابندی کے نئے قانون کے تحت پولیس مساجد میں داخل ہوکر اسپیکرز ضبط کرسکتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ اس حکم کے درمیان مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: December 08, 2024, 10:05 AM IST | Inquilab News Network | Tel Aviv
اسرائیل میں اذان پر پابندی کے نئے قانون کے تحت پولیس مساجد میں داخل ہوکر اسپیکرز ضبط کرسکتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ اس حکم کے درمیان مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
اسرائیلی شہر لُد میں آباد مسلمان، اسرائیلی حکومت کے اذان پر پابندی عائد کرنے کے حالیہ فیصلے کے خلاف بے چینی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس دوران مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لُد کے ایک شہری، سرسور، جو اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ مسجد میں گزارتے ہیں، نے مساجد میں اذان کی نشریات پر حالیہ اسرائیلی پابندی کو نمازیوں میں اچانک اضافہ کی اہم وجہ قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ نمازیوں کی تعداد میں اضافہ، مسلمانوں کے مذہبی اظہار کو خاموش کرنے کی اسرائیلی حکومت کی تازہ ترین کوشش کے خلاف ایک خاموش لیکن طاقتور مزاحمت ہے۔ ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق، ۲۷؍ سالہ نوجوان سرسور نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت کا یہ فیصلہ آسانی سے کامیاب نہیں ہوگا۔ اگر اسرائیلی پولیس نے لاؤڈ اسپیکرز ہٹانے اور اذان دینے سے روکنے کی کوشش کی تو افراتفری پھیل جائے گی۔ لُد کے نوجوان، جو اپنی ہمت کیلئے مشہور ہیں، حکومت کو سخت جواب دیں گے۔
واضح رہے کہ اتوار کے روز، اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر، بین گویر نے پولیس فورسز کو حکم دیا کہ وہ مساجد سے اسپیکرزکو ضبط کر لیں۔ اس اقدام کو یہودی آبادی والے علاقوں میں اذان کی نشریات روکنے کی کوششوں کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس فیصلہ کو ابھی اسرائیلی کنسیٹ کی منظوری ملنا باقی ہے۔ اس قانون کے تحت، پولیس مساجد میں داخل ہوکر اسپیکرز ضبط کرسکتی ہے اور نئے قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے۔ گویر کے مطابق، مسلمانوں اور یہودیوں کی مخلوط آبادی والے اسرائیلی شہروں کے رہائشیوں کی درجنوں شکایات کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل وزیر گویر نے کہا کہ یہ اقدام، یورپ اور مہذب ممالک کے راستے پر چلتے ہوئے اٹھایا گیا ہے اور عرب ممالک میں بھی ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئئے: آسٹریلیا : یہودی عبادتگاہ پر نامعلوم افراد کاحملہ، آتشزنی، ۶؍افراد زخمی
فلسطینی مسلمان اور لد میں آباد تقریباً ۲۰؍ ہزار مسلمان، اس اقدام کو ان کے عبادت کے حق پر پابندی اور ان کی ثقافت اور روایات کو ختم کرنے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیلی کنٹرول کے تحت علاقوں میں مسلمانوں نے اس فیصلے کی فوری مذمت کی اور مسلم اور عرب رہنماؤں نے سوشل میڈیا پر اس پالیسی کے نفاذ کے خلاف متنبہ کیا۔ نیشنل ڈیموکریٹک اسمبلی پارٹی کے سربراہ سمیع ابوشہاد نے اس اقدام کی واضح الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ مساجد سے اسپیکرز کو ضبط کرنا غیر قانونی ہے اور ’سماجی ہم آہنگی کے بہانے چوری‘ کے مترادف ہے۔ اس کی بجائے، نسل پرستی اور بین گویر جیسے نسل پرستوں کی آوازوں کو خاموش کرنا ضروری ہے۔ ابوشہاد نے مزید کہا کہ مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے سے ہم آہنگی کو فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے سماجی روابط پر منفی اثر پڑے گا۔ مزید برآں، اس اقدام سے اسرائیل کے تسلیم شدہ علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان وسیع احتجاج اور افراتفری پھیل سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل حامی معروف انگریز شاعر مائیکل روزن بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف
واضح رہے کہ اسرائیلی سیاست داں، مسلمانوں کے خلاف، اپنی اشتعال انگیز بیان بازی اور اشتعال انگیز اقدامات کے لئے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے مسجد اقصیٰ کے غیر اعلانیہ دورے بھی کئے جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار ایہاب جبرین کا کہنا ہے کہ اذان کے متعلق نئی پالیسی، جزوی طور پر کارآمد ہے اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے علاوہ دائیں بازو کے حلقوں کو خوش کرنے کے لئے متعارف کرائی گئی ہے۔ جبرین نے اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کے سیاسی فائدے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بین گویر سرخیوں میں آنے کیلئے، ہمیشہ مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔