• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوئزر لینڈ کے شہری نے اپنے ذخیرے میں پیغمبرﷺ کی تلوار ہونے کا دعویٰ کیا

Updated: February 07, 2025, 10:22 PM IST | Bern

سوئزر لینڈ کے ایک شہری نے دعویٰ کیا کہ اس کے قدیم اشیاء کے ذخیرے میں پیغمبرﷺ کی تلوار ’’ذوالفقار ‘‘ موجود ہے۔ جسے پہلے ایک نقل سمجھا جا رہا تھا، اب اس کی تصدیق ہو چکی ہے۔

Symbolic image. Photo: X
علامتی تصویر۔ تصویر: ایکس

سوئزر لینڈ کے ایک شہری نے دعویٰ کیا کہ اس کے قدیم اشیاء کے ذخیرے میں پیغمبرﷺ کی تلوار ’’ذوالفقار ‘‘ موجود ہے۔جسے اس نے بحرین کے ایک ذخیرہ اندوز سے ۲۰۰۶ء میں حاصل کیا تھا، اور اس کی اصلیت کی توثیق کرنے کیلئے اسے وسیع پیمائش اور جانچ سے گزرنا پڑا۔ٹروئچر نامی شخص کے مطابق تلوار کا مطالعہ کرنے والے ماہرین نے گزشتہ سال ایک پیش رفت کے طور پر تلوار پرعربی، فارسی، ترکی زبان میں لکھے ہوئے نوشتہ جات کو سمجھا، ایک پیشہ ور ترجمے کی کمپنی اور ایرانی ترجمہ کے ماہر کی مدد سے ان نوشتہ جات کو ظاہر کیا گیا تھا جس میں پیغمبر محمدﷺ، ان کی بیٹی فاطمہؓ، داماد علیؓ اور پوتے حسنؓ اور حسینؓ کے نام تھے۔

یہ بھی پڑھئے: ماہ رمضان میں عمرہ کرنے کی مانگ کے سبب ہوائی سفر کا کرایہ ۱۴۰۰؍ درہم کے پار

ٹروئچر نے مزید دعویٰ کیا کہ دو دھاری تلوار ’’ ذوالفقار ‘‘ ہے، یہ ہتھیار ر پیغمبر محمد ﷺاور ان کے خاندان سے وابستہ ہے جو ابتدائی اسلامی تاریخ میں اہم جنگوں کے دوران استعمال ہوا تھا۔اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس پر لکھی گئی تحریر ۷؍ ویں سے ۱۲؍ ویں عیسوی کی عام زبان تھی۔خصوصاً اسلام کے ابتدائی دور میں۔ واضح رہے کہ  ’’ ذوالفقار ‘‘ کے تعلق سےپین اسٹیٹ یونیورسٹی کے ذریعہ شائع ہونے والے اسلامی تاریخ کے لیکچرر ڈیوڈ الیگزینڈر کے ایک مقالےمیں کہا گیا ہے کہ ’’ ذوالفقار ‘‘ پیغمبر محمد ﷺکے ورثے کی ایک بڑی علامت ہے۔ ابتدائی تاریخ نگار ہمیشہ اسے سب سے اہم قرار دیتے ہیں۔ اسےتنہا ہی  بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ’ احد ‘جیسی اہم فتوحات میں اس کا استعمال ہوا۔ یہ دوسری تلواروں سےممتازہے کہ وہ نبیﷺ کی تلوارہے۔
اس کے بعد تلوار کی یورپ بھر کے اسکالرز اور ماہرین کے ذریعہ اضافی جانچ پڑتال کی گئی، بشمول مورخین، ماہرین دھات اور اسلامی نوادرات کے ماہرین، بشمول پروفیسر میخائل تموکین، لیتھوانیا سے اے لوچتناس، یوکرین سے اے منزولن اور جی گریخ، امریکہ سے اے بلخ اور اے کریوکیڈیس کے وی کریوکیڈیس۔ دسمبر میں، سوئٹزرلینڈ کے کئی پروفیسرنے بھی ڈیٹا کے تجزیہ میں حصہ لیا، جن میں رین ہارڈ شلٹز، اسکالر اور برن یونیورسٹی میں اسلامیات کے ریٹائرڈ پروفیسر بھی شامل تھے۔تموکین کی تصنیف کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، ان کے اتفاق رائے نے تلوار کو ایک حقیقی تاریخی آثار کے طور پر تسلیم کیا، جو کہ ابتدائی اسلامی دور اور پیغمبر محمد ﷺکے خاندان سے براہ راست منسلک ہے۔تاہم قومی سطح پر طلب کئے گئے مشورے کے جواب میں ماہرین نے اپنے نتائج کی ممکنہ صداقت پر شک ظاہر کیا ہے۔شارجہ کی امریکن یونیورسٹی میں شعبہ عربی اور ترجمے کے مطالعہ کے سربراہ احمد علی کہتے ہیں کہ ’’یہ انتہائی ناممکن ہے کہ یہ مستند’’ ذوالفقار‘‘ ہو۔ مخصوص ناموں کے ساتھ عربی، فارسی اور ترک زبانوں میں نوشتہ جات کی موجودگی نبیﷺ کی تلوار کے طور پر اس کی صداقت کے بارے میں اہم شکوک پیدا کرتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ابتدائی اسلامی تلواروں میں عام طور پر کوئی وسیع نوشتہ نہیں ہوتا تھا - خاص طور پر وہ جن پربعد میں آنے والی تاریخی شخصیات کا حوالہ ہو- اس سے پختہ طور پر پتہ چلتا ہے کہ زیربحث تلوار یا تو بعد کے دور میں تخلیق کی گئی تھی یا جنگ کی بجائے علامتی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ایچ آر ایف کی شکایت کے بعد سوئس حکام کی مبینہ اسرائیلی جنگی مجرم کے خلاف تحقیقات

شارجہ کی امریکن یونیورسٹی میں فزکس اور میٹریل سائنس کے پروفیسر ناصر ایم حمدان، جنہوں نے تموکین کی رپورٹ کا جائزہ لیا کہا کہ ’’ اگرچہ میٹالرجیکل تجزیہ معقول معلوم ہوتا ہے، لیکن کسی چیز کی عمر کا اندازہ لگانےکیلئے ناکافی ہے خصوصاً ، جو کہ ۱۵۰۰؍ سال پرانی ہے۔ لیکن علی کے مطابق،’’ تلوار کا سائنسی مطالعہ اب بھی اس بات کی تصدیق کرنے کیلئے کافی نہیں ہوگا کہ یہ اصل ہے۔اگرچہ میٹالرجیکل اور تاریخی تجزیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تلوار ابتدائی اسلامی دور کی ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا تعلق براہ راست پیغمبر محمدﷺ یا علی ؓسے ہو۔ بہترین طور پر، یہ اس دور کی ایک تلوار ہو سکتی ہے، لیکن ذوالفقار سے اس کا انتساب مکمل طور پر قیاس آرائی پر مبنی ہے اور اس میں علمی اعتبار سے کوئی صداقت نہیں ہے۔‘‘انہوں نےمزید کہا کہ’’ اس بات کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے کہ اس تلوار کی دو دھار تھی۔ اور بہت سے ماہر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دو دھاری تلوارکا خیال، تلوار کی اصل صورت کی حقیقت پر مبنی وضاحت کی بجائے بعد کی علامتی یا فنکارانہ تخلیق تھی۔تاہم، ناقابل تردید تاریخی شواہد کے بغیر، اس طرح کے دعووں سے احتیاط برتنا چاہئے۔‘‘
تاہم تلوار کا مالک اور سائنس دانوں کی ایک ٹیم اس کے تعلق سے مزید مطالعاتی مقالہ تیار کر رہی ہے، جو اسلامی تاریخ کے اس نایاب اور اہم حصےکے بارے میں نئی ​​وضاحتیں پیش کرے گی۔دریں اثناء ٹروئچر کے مطابق اس تلوار کی نمائش کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، جس میں متعدد ممالک کے اعلیٰ مفتیوں کا ایک وفد فروری میں تلوارکا مطالعہ کرنے کیلئے برن پہنچے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK