ہندوستان میں پناہ گزینوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت پر مبنی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ زیادہ تر روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: December 20, 2024, 1:58 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
ہندوستان میں پناہ گزینوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت پر مبنی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ زیادہ تر روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔
ایک امریکی ادارہ جو بے گھر افراد کی وکالت کرتا ہے، نے ایک تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ہے۔ اس میں ہندوستان کی جانب سے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کے اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکامی، اور آئین کی سنگین خلاف ورزی کو نشان زد کیا گیا ہے۔ہندوستان میں پناہ گزینوں کے زیر حراست افراد، ان کے اہل خانہ اور وکلاء کے ساتھ بات چیت اورحراستی مرکز کے دورے پر مبنی اس تحقیق میں پتا چلا ہے کہ زیادہ ترروہنگیا پناہ گزینوں کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد بھی حراست میں لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں تقریباً ۲۲؍ ہزار ۵؍ سو روہنگیا پناہ گزین اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے پاس مندرج ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق ۶۷۶؍ روہنگیا امیگریشن حراست میں ہیں، جن میں سے ۶۰۸؍ کے خلاف کوئی عدالتی مقدمات یا سزائیں زیر التواء نہیں ہیں۔ زیر حراست روہنگیا میں۵۰؍ فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ انہیں بین الاقوامی اداروں تک رسائی سے بازرکھا گیا ہے، یعنی بہت سے روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے (بغیر کسی مجرمانہ الزامات کے) من مانے طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ایسے قیدیوں میں حاملہ عورتیں، دودھ پلانے والی مائیں، بچے، معذور افراد، اور بوڑھے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: جرمنی: ہزاروں شامی مہاجر ڈاکٹروں کی وطن واپسی پر شعبہ صحت میں بحران کا اندیشہ
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حراستی مراکز میں بچوں کو اسکول یا کھیل کے میدان تک رسائی نہیں ہے، اور بوڑھے لوگوں کو کھانے اور بیت الخلا تک رسائی کیلئے ساتھی قیدیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔رپورٹ میں دائمی بھوک، ناقص خوراک، ناقص غذائیت، ناقص صفائی، اور وینٹیلیشن کی کمی کو بھی نشان زد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شدید ذہنی اور جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں، جن میں عارضی فالج بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ میاں بیوی اور بچوں کو ضابطہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علاحدہ رکھا گیا۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ نسل کشی سے بچنے کیلئے ہندوستان آئے روہنگیاؤں کو ہندوستانی حکومت کے ذریعے باوقار پناہ گاہ فراہم کرنی چاہئے۔اس کے علاوہ کمزور روہنگیاؤں کو فوری طور پر رہا کیا جائے، ساتھ ہی مزید روہنگیا کی من مانی حراست کو ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی ہندوستانی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے اپنی پالیسی بین الاقوامی معیارات کے مطابق ترتیب دے۔اس کے علاوہ امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر حراست میں لئے گئے روہنگیا پناہ گزینوں کی رہائی کیلئے ہندوستانی حکومت کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرے۔ اور حراستی مراکز میں بہتر حالات اور خاندانوں کے دوبارہ اتحاد کیلئے دباؤ ڈالے۔
یہ بھی پڑھئے: ’’کسانوں کیلئے عدالت کے درواز ے ہمیشہ کھلے ہیں ‘‘
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہندوستان ۱۹۵۱ء کے پناہ گزین کنونشن یا اس کے ۱۹۶۱ء پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ نتیجے کے طور پر ہندوستان میں روہنگیا پناہ گزینوں کو فارنر ایکٹ ۱۹۴۶ء کے سیکشن ۱۴؍ (اے) (بی) اور پاسپورٹ ایکٹ ۱۹۸۰ء کے قاعدہ ۶؍ کے تحت قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے اپنے قانون کے تحت روہنگیا پناہ گزینوں کی غیر معینہ مدت تک حراست غیر قانونی اور من مانی ہے۔